لیبیا میں کرنل معمرقذافی کی ہلاکت اور ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہونے کے بعد قومی عبوری کونسل نے ملکی امور چلانے اورآزادانہ انتخابات کرانے کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کردی ہے ۔ مگر جیسے جیسے عبوری حکومت کے خدوخال واضح ہورہے ہیں ، مغربی ممالک میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ لیبیا ایک بنیاد پرست اسلامی معاشرے کی طرف بڑھ رہاہے۔ جب کہ دوسری جانب اس ملک میں بہت سے لوگ ایک ایسے جمہوری نظام کے حامی ہیں جس میں مذہب کا عمل دخل صرف ثقافتی رسومات اور عبادات تک محدود ہو۔
لیبیا کے اعلان آزادی کے بعد ہر جگہ خوشی کا سما ن تھا۔ طرابلس کے بازاروں میں ہجوم تھا اور لوگ ایک نئے مستقبل کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہیں میں امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے والے انجنیرنگ کنسلٹنٹ محمد الجدی بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں ہیں ۔ میں بہت پر امید ہوں کہ ہم ایک نئی راہ پر چل پڑیں گے اور یہ ایک جمہوری ملک بن کر ابھرے گا۔دوسرے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا۔
مگر نیشنل ٹرانزشنل کونسل کے سربراہ مصطفی عبدلجلیل نے آزادی کے موقع پر جو تقریر کی، اس سے مغرب کے بہت سے راہنما فکر مند بھی ہیں کہ کہیں لبیا مذہبی شدت پسندی کے زیر اثرآ کر خواتین کے حقوق اور ترقی کی راہ سے دور نہ ہو جائے۔
پریشان ہونے والوں میں لبیا کے فتھی بن عیسا بھی تھے۔ وہ دی مرمیڈ نامی قومی اخبار کے ایڈیٹر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ انقلاب تب تک مکمل نہیں مانا جا سکتا جب تک کہ اس کے مقاصد پورے نہ ہو جایں۔ وہ ہے ایک جمہوری ریاست کا قیام ۔ سب سے پہلا کام ایک ریفرنڈم کروانا ہوگا کہ نیا لبیا کیسا ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ لیبیا کی عوام کو جمہوریت اور ترقی کی حمایت کرنا چاہیے مگر ان کی رائے صرف ووٹ کے ذریعے معلوم ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیبیا واضح طور پر ایک اسلامی ملک بنے گا، مگر کچھ لوگ اسے آزاد اور ترقی پسند ملک بھی قرار دیتے ہیں ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ سالہا سال کی آمریت نے انہیں شخصی آزادی اور جمہوری حقوق کا طلب گار بنا دیا ہے۔