لیبیا کی دو حریف حکومتوں میں سے ایک نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں نئی متحدہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے خاتمے کا اعلان کیا ہے
طرابلس میں قائم اسلام پسند نیشنل سالویشن حکومت نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ "ملک کے مفاد کو ہر چیز سے مقدم رکھتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ قتل و غارت کو ختم ہونا چاہیے اور ملک کو تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہو گا"۔
بیان میں کہا گیا کہ پارلیمان کو ختم کیا جارہا ہے وزیر اعظم اور وزارتوں کے سربراہ اپنے تمام عہدے چھوڑ رہے ہیں۔
طبرق کے مشرقی شہر میں ایک اور لیبیائی انتظامیہ اب تک متحدہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
متحدہ حکومت کے نئے وزیر اعظم فیاض السراج ایک بحری اڈے پر اپنا دفتر قائم کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے طرابلس پہنچے تھے۔
امریکہ اور مغرب اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ نئی حکومت ملک بھر میں اپنی علمداری کو قائم کرنے کی کوشش کر ے گی اور ملک کو متحد کر کے کامیابی کے ساتھ داعش کے خلاف لڑائی میں شامل ہو گی۔
لیبیا میں ایک طویل عرصے تک حکمران رہنے والے معمر قذافی کے 2011ء میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے ملک بدامنی اور انتشار کا شکار ہے۔
مسلح حریف دھڑے گزشتہ پانچ سال کے دوران اقتدار پر قبضہ کرنے اور لیبیا کی تیل کی صنعت کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔
اس بحران کی وجہ سے داعش جیسے انتہا پسند گروپوں کے لیے لیییا کے کئی علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا راستہ کھل گیا اور وہ تیل کے کنوؤں اور تیل کی تنصیبات کا قبضہ کرنے کے لیے لڑائی کرتے آئے ہیں۔