11 ستمبر 2001 انسانی تاریخ میں ایک ایسے دن کے طور پر طلوع ہوا جس نے زندگی کے دھارے کو ایک دوسری جانب موڑ دیا اور واضح طور پر دنیا میں ایک تبدیلی آئی۔ نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور نائن الیون کے بعد کی دنیا کے حوالے دیے جانے لگے۔ کئی سوال بھی ابھرے کہ اس دن نے دنیا کو زیادہ محفوظ بنا دیا یا پھر زندگی زیادہ غیر محفوظ ہو گئی۔
ابھی اس بات کا تعین نہیں ہوا تھا کہ 2020 کے آغاز نے بھی ایک نئے بحران کا پتا دیا اور آج دنیا اس نئے بحران کی زد میں ہے۔ لاکھوں افراد کرونا وائرس کا شکار اور ہزاروں اموات۔ شہر کے شہر لاک ڈاؤن میں۔ آمد و رفت پر پابندی۔ فضائی سفر کی راہ دشوار۔ کاروبار بند۔ کروڑوں افراد گھروں میں بند کام پر مجبور۔
اور یہ صورتحال پھر کئی سوال اٹھانے لگی۔ کیا اس بحران کے خاتمے کے بعد زندگی وہیں سے شروع ہو گی جہاں رکی تھی؟ کتنے لوگ اپنی ملازمتوں کو قائم رکھ سکیں گے؟ کتنے چھوٹے کاروبار اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہو سکیں گے؟ کس طرح ہم زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو ’فار گرانٹڈ‘ لے سکیں گے؟ کومتیں اپنے عوام کی زندگی کو معمول پر لانے کے لئے کتنے مشکل فیصلے کر سکیں گی؟
ان سارے سوالوں کے تناظر میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کیا سوچتے ہیں؟ یہی جاننے کے لئے ہم نے ایک سلسلہ شروع کرنے کا سوچا۔ آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ ایک سوشیالوجسٹ جس کا تعلق معاشرے سے گہرا ہوتا ہے اس بارے میں کس طرح سوچتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر نادر بخت پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں سوشیالوجی کے شعبوں کے ڈین رہ چکے ہیں اور ابھی لاہور میں منہاج یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد دنیا کی صورت کیا ہوگی؟ زندگی کا ڈھب کیا رہے گا؟
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’بنیادی طور پر ایک سوشیالوجسٹ ہونے اور انسانی اقدار کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ہم انسان ماضی اور تاریخ دونوں ہی سے بہت کم سیکھتے ہیں''۔
ڈاکٹر نادر بخت نے کہا کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے بھی صرف وہی لوگ سیکھیں گے جو سیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ کچھ مورخ اور کچھ وہ جو مائیکروفون کے ذریعے لوگوں کی آواز بنے ہوئے ہیں وہ اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بہت سوچیں گے۔ لیکن، شاید ان کی سوچ بہت موثر ثابت نہ ہو۔
بقول ان کے، ''یہ صورتحال انسانوں کے لئے دشوار اور پیچیدہ ہے، خود انسانوں کی طرح۔ عالمی وبا کے خاتمے کے بعد کم آمدن والے طبقے کے لئے مسائل پیدا ہونگے، جبکہ با حیثیت اور اثر و رسوخ رکھنے والے اس موقعے سے ہر ممکن فائدہ اٹھائیں گے''۔
ڈاکٹر نادر بخت سے ہمارا سوال تھا کہ دنیا اس بحران سے نکلنے کے بعد بہتر ہو گی یا صورتحال اور خراب ہوگی؟ اس کے جواب میں، انھوں نے کہا ’’اگر معاشرے کی سطح پر بات کی جائے تو یہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔ منطقی طور پر لمبے عرصے تک ’سماجی فاصلے‘ سے ایک نیا رجحان پیدا ہوگا جو ضرورت کی بنیاد پر رشتے بنائے گا''۔
انھوں نے کہا کہ متعدد لوگ اس وبا میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کو گنوا کر احساس محرومی کا شکار ہو جائیں گے اور زندگی معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔ سماجی فاصلے اور تنہا رہنے سے سوچنے کا موقع تو ملے گا اور ممکن ہے اس سے نیا سوشل آرڈر وجود میں آئے۔
''اس نئے سوشل آرڈر کے نتیجے میں مقامی اور علاقائی سطح پر صورتحال تبدیل ہوگی اور ممکنہ طور پر زندگی اور باہمی رابطوں کی قدر و قیمت کا احساس بڑھ سکتا ہے''۔
ڈاکٹر نادر بخت نے کہا ہے کہ انسانی سطح پر بنیادی ضروریات اور جذبات یا تو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں یا پھر دوری کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے، عین ممکن ہے کہ سماجی دوری نئے انداز میں تعلقات استوار کرنے کی وجہ بن سکے۔
آپ اگر ہمارے آرٹیکلز کے اس سلسلے میں شامل ہوں تو اپنی رائے دیں کہ آپ کے خیال میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد دنیا کیسی ہوگی؟