امریکہ کے سابق صدور وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی مختلف سماجی سرگرمیوں کا حصہ بن کر معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں
واشنگٹن —
کیا آپ کے ذہن میں کبھی اس سوال نے سر اٹھایا ہے کہ امریکی صدور صدارت کے بعد اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ اگر ہاں، تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ مختلف امریکی صدور کیسے اپنے دور ِ صدارت کے بعد بھی کارآمد اور مثبت سرگرمیوں کا حصہ بن کر معاشرے کی فلاح میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اگر ہم سابق امریکی صدور کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور صدارتی دفتر ’اوول آفس‘ سے باہر بھی ایک زندگی ہے۔ اور امریکی صدور کے لیے اسی لیے ’ریٹائر‘ کا لفظ بے معنی ہو جاتا ہے۔ آئیے مختلف امریکی صدور کی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے بعد کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
جارج واکر بش:
جارج بش امریکی تاریخ کے ایک معروف صدر تھے جنہوں نے 2009 میں قصر ِ صدارت کو خیرباد کہا۔ اپنے دور ِ صدارت میں جارج بش پوری دنیا میں بہت اہمیت کے حامل رہے لیکن وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کی ان کی سرگرمیوں کے بارے میں عوام زیادہ نہیں جانتے۔
گذشتہ برس انہوں نے زیمبیا میں رضاکاروں کے ساتھ مل کر ایک ایسے کلینک کی تعمیرِ نو میں حصہ لیا جو کینسر کے مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ دیگر سابق امریکی صدور کی طرح جارج بش بھی اپنی مقبولیت کو مختلف رضاکارانہ سرگرمیوں میں شرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ان سرگرمیوں کی تشہیر کرنا پسند نہیں کرتے۔ ان کے الفاظ میں، ’مجھے امید ہے کہ آپ کو میری ان سرگرمیوں کی زیادہ خبر نہیں ہوگی۔ کیونکہ میں ان کی تشہیر نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے لفظوں میں میرا یقین ہے کہ ایسے کام خاموشی سے کرنا سب سے بہتر ہے‘۔
بل کلنٹن:
صدر کلنٹن اپنے دور ِصدارت کے بعد بھی عوام کی آنکھ کا تارا بنے رہے اور بعد میں بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ صدارت کے بعد بھی انہوں نے اپنے آپ کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل رکھا۔ جیسا کہ وہ ہیٹی کے لیے اقوام ِ متحدہ کے خاص ایلچی بنے، انہوں نے شمالی کوریا پر امریکی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا اور اپنی اہلیہ ہلری کلنٹن کی 2008 میں صدارتی امیدوار کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
صدر کلنٹن نے ایک ادارے ’کلنٹن گلوبل اینیشیوٹیو‘ کی بنیاد بھی ڈالی، ان کے بقول، ’’یہ ادارہ بڑے عالمی چینلجز کا درجہ بہ درجہ چھوٹے اقدامات سے سامنا کرے گا‘‘۔
ایچ ڈبلیو بش:
لنڈن بینز جانسن صدارتی لائبریری کے سربراہ مارک اب ڈیگرو کے مطابق، ’’اپنے بیٹے کی طرح سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کو بھی اپنی سرگرمیوں کی تشہیر کرنا پسند نہیں۔ وہ اپنے فلاحی کام کو پرائیویٹ رکھنا پسند کرتے ہیں‘‘۔
رونلڈ ریگن:
سابق مووی سٹار رونلڈ ریگن نے جو بعد میں امریکہ کے صدر بنے 1989 میں وائٹ ہاؤس کو خیرباد کہا۔ رونلڈ ریگن نے 1994 میں ایک خط شائع کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ یادداشت کی خرابی سے متعلق ایک مرض ’الزائمرز‘ میں مبتلا ہیں۔ ان کی اہلیہ نینسی کا کہنا ہے کہ یہ خط ایک طرح سے اس مرض کے خلاف آگہی پھیلانے کی کوشش تھی۔
اس خط پرعوام سے ملنے والے ردِ عمل پر نینسی ریگن نے محسوس کیا کہ اپنی پوری ازداوجی زندگی کے دوران وہ اور ان کے شوہر ’پبلک فگر‘ رہے۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر ہم چند سرگرمیوں کا حصہ بن کر معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں تو پھر ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیئے‘۔
ہنگامی نوعیت کے مشنز:
سابق امریکی صدور مثبت سرگرمیوں کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ 2010 میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد ایک فنڈ ریزر میں سابق صدر جارج بش اور بل کلنٹن نے حصہ لیا۔ اس موقعے پر صدر براک اوباما نے اُن کی تعریف ان الفاظ میں کی، ’امریکی عوام کی جانب سے میں آپ دونوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ یہاں آئے اور اس ہنگامی مشن کا حصہ بنے‘۔
’ایک وقت میں جو لوگ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، جب کرسی ِ صدارت چھوڑ کر واپس پرانی دنیا میں جاتے ہیں تو بعض اوقات انہیں یہ سمجھنے میں دقت پیش آسکتی ہے کہ اب وہ اپنی زندگی میں کیا کریں‘۔ یہ بات امریکی صدور کے حوالے سے تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھنے والے تاریخ دان رچرڈ نارٹن سمتھ نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’اگر آپ کبھی صدر رہے ہوں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ صدارت کے بعد آپ کا حکومت سازی یا اس سے متعلق کسی بھی فیصلے میں کوئی خاص کردار باقی نہیں رہتا۔ لیکن، ایسے بھی صدور ہیں جو پرانے صدور کو بلا کر ان سے صلاح لیتے رہتے ہیں‘۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آج کے امریکی صدور کی زندگی 1958 سے بہت مختلف ہے۔
اب سابق صدور کو پنشن ملتی ہے، دفتر کے جگہ دی جاتی ہے اور سٹاف کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں، جس سے انہیں کسی بھی نوعیت کی سرگرمیوں کا حصہ بننے اور کام کرنے میں آزادی رہتی ہے۔
لیکن، 1958 سے پہلے سابق صدور کو یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ جبکہ، اب جدید ٹیکنالوجی بھی امریکی صدور کو عوام کے ساتھ منسلک رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
رچرڈ نارٹن سمتھ کہتے ہیں کہ، ’اب صدارتی سرگرمیاں چوبیس گھنٹے خبروں کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ اور صدر ہماری زندگیوں میں شامل رہتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں خبروں کی صورت میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اور چاہے آپ کی سیاسی وفاداری جس کے ساتھ بھی ہو، امریکی صدر اور ان کا خاندان ایک طرح سے آپ کی زندگی کا ایک جزو بن جاتا ہے‘۔
اگر ہم سابق امریکی صدور کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور صدارتی دفتر ’اوول آفس‘ سے باہر بھی ایک زندگی ہے۔ اور امریکی صدور کے لیے اسی لیے ’ریٹائر‘ کا لفظ بے معنی ہو جاتا ہے۔ آئیے مختلف امریکی صدور کی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے بعد کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
جارج واکر بش:
جارج بش امریکی تاریخ کے ایک معروف صدر تھے جنہوں نے 2009 میں قصر ِ صدارت کو خیرباد کہا۔ اپنے دور ِ صدارت میں جارج بش پوری دنیا میں بہت اہمیت کے حامل رہے لیکن وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کی ان کی سرگرمیوں کے بارے میں عوام زیادہ نہیں جانتے۔
بل کلنٹن:
صدر کلنٹن نے ایک ادارے ’کلنٹن گلوبل اینیشیوٹیو‘ کی بنیاد بھی ڈالی، ان کے بقول، ’’یہ ادارہ بڑے عالمی چینلجز کا درجہ بہ درجہ چھوٹے اقدامات سے سامنا کرے گا‘‘۔
ایچ ڈبلیو بش:
لنڈن بینز جانسن صدارتی لائبریری کے سربراہ مارک اب ڈیگرو کے مطابق، ’’اپنے بیٹے کی طرح سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کو بھی اپنی سرگرمیوں کی تشہیر کرنا پسند نہیں۔ وہ اپنے فلاحی کام کو پرائیویٹ رکھنا پسند کرتے ہیں‘‘۔
رونلڈ ریگن:
اس خط پرعوام سے ملنے والے ردِ عمل پر نینسی ریگن نے محسوس کیا کہ اپنی پوری ازداوجی زندگی کے دوران وہ اور ان کے شوہر ’پبلک فگر‘ رہے۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر ہم چند سرگرمیوں کا حصہ بن کر معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں تو پھر ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیئے‘۔
ہنگامی نوعیت کے مشنز:
سابق امریکی صدور مثبت سرگرمیوں کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ 2010 میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد ایک فنڈ ریزر میں سابق صدر جارج بش اور بل کلنٹن نے حصہ لیا۔ اس موقعے پر صدر براک اوباما نے اُن کی تعریف ان الفاظ میں کی، ’امریکی عوام کی جانب سے میں آپ دونوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ یہاں آئے اور اس ہنگامی مشن کا حصہ بنے‘۔
’ایک وقت میں جو لوگ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، جب کرسی ِ صدارت چھوڑ کر واپس پرانی دنیا میں جاتے ہیں تو بعض اوقات انہیں یہ سمجھنے میں دقت پیش آسکتی ہے کہ اب وہ اپنی زندگی میں کیا کریں‘۔ یہ بات امریکی صدور کے حوالے سے تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھنے والے تاریخ دان رچرڈ نارٹن سمتھ نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’اگر آپ کبھی صدر رہے ہوں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ صدارت کے بعد آپ کا حکومت سازی یا اس سے متعلق کسی بھی فیصلے میں کوئی خاص کردار باقی نہیں رہتا۔ لیکن، ایسے بھی صدور ہیں جو پرانے صدور کو بلا کر ان سے صلاح لیتے رہتے ہیں‘۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آج کے امریکی صدور کی زندگی 1958 سے بہت مختلف ہے۔
اب سابق صدور کو پنشن ملتی ہے، دفتر کے جگہ دی جاتی ہے اور سٹاف کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں، جس سے انہیں کسی بھی نوعیت کی سرگرمیوں کا حصہ بننے اور کام کرنے میں آزادی رہتی ہے۔
لیکن، 1958 سے پہلے سابق صدور کو یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ جبکہ، اب جدید ٹیکنالوجی بھی امریکی صدور کو عوام کے ساتھ منسلک رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
رچرڈ نارٹن سمتھ کہتے ہیں کہ، ’اب صدارتی سرگرمیاں چوبیس گھنٹے خبروں کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ اور صدر ہماری زندگیوں میں شامل رہتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں خبروں کی صورت میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اور چاہے آپ کی سیاسی وفاداری جس کے ساتھ بھی ہو، امریکی صدر اور ان کا خاندان ایک طرح سے آپ کی زندگی کا ایک جزو بن جاتا ہے‘۔