مغرب کے بارے میں اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں اخلاقی قدروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مگر مغرب میں آکر دیکھیں تو اخلاقیات کے اصل معنی سمجھ میں آتے ہیں۔
امریکیوں کی جو سب سے اچھی بات سامنے آتی ہے، وہ ملتے ہی مسکرانا:How are you? آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ اور آپ کا لباس اچھا لگے تو بے دریغ پسندیدگی کا اظہار کرنا۔ شاید یہ اخلاق کی پہلی منزل ہے۔ اِس لیے ضروری نہیں کہ آپ کی جان پہچان ہو۔ انتہائی اجنبی امریکی بھی آپ سے اُسی تپاک سے ملے گا اور یہ انداز خود ساختہ نہیں۔
انتہائی بچپن ہی سے بچوں کو ’ہیلو ہائے‘ اور’ تھینک یو‘ کی تربیت دی جاتی ہے۔بچے بڑوں کےدرمیان ہوں تو ’معاف کیجئے‘ کہے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔
آپ دروازے سے نکلیئے تو اپنے پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ تھام کر رکھیئے، ایک مسکراہٹ کے ساتھ’ شکریہ‘ آپ کو نہال کردے گا۔
ایک ہی محفل میں لوگ زیادہ تر انگریزی بول رہے ہوں تو نہیں چاہیں گے کہ آپ اپنی زبان میں گفتگو کریں، کیونکہ اِسے اخلاق کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
مگر آپ جو بھی زبان بولتے ہوں، جو بھی لباس پہنیں۔ جِس ملک سے تعلق رکھتے ہوں، دنیا کے کسی بھی خطے سے آکر امریکہ میں بس جایئے، امریکی آپ کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔آپ کا کھانا خوش دلی سے کھائیں گے اور خوب تعریف کریں گے۔
یہ صرف امریکہ کی ہی خوبی ہے کہ آپ سے رنگ، نسل ، مذہب یا وطن کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔
ملازمت میں سہولتیں یکساں۔ شہری اور مذہبی آزادیا یکساں۔ اپنے گھر میں آپ جیسے بھی رہنا چاہیں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ مگر گھر کے باہر شاپنگ کرتے ہوئے، ڈاکٹر کے کلینک پر، ریل کے اسٹیشن پر، غرض کسی بھی پبلک مقام پر کچھ اصول ضابطے مقرر ہیں اور اُن کی پابندی ایسے کی جاتی ہے کہ آپ خود بخود ویسے ہی کرنے لگتے ہیں۔
اونچی آواز میں بات کرنا، کوڑا کرکٹ اِدھر اُدھر پھینک دینا اور سروں سےٹکرا کر آگے نکلنے کی کوشش، لپک جھپک، دھکم پیل، یہ سب امریکی اخلاقیات کے خلاف ہے۔
ایک عام امریکی بھی آپ کوحسنِ اخلاق سے مالا مال ملے گا۔ مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر اور معمولی سی مدد پر بھی بھرپور شکریہ۔
یہی ابتدا اور یہی انتہا ہے امریکی زندگی کی ۔
کسی بھی کھڑکی پر کوئی بھی چیز خریدتے وقت دو یا دو سے زیادہ لوگ خود بخود قطار بنا لیتے ہیں۔ کسی کو دھکیل کر خود قطار میں آگے جانے کی قطعاً اجازت نہیں دی جاتی۔ باری کا انتظار کیجئے کہ نظم و ضبط کی پہلی سیڑھی یہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: