بھارت ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی 'نئی دنیا'

نئی دہلی کے مضافاتی علاقے میں رہائش پذیر مہاجرین نے کیمپوں میں معمول کی زندگی گزارنا شروع کردی ہے۔ ایشور لال اور ان کی اہلیہ آرتی دیوی بھی اپنی نومولود بیٹی اور والدہ کے ہمراہ نئی دہلی کے عارضی کیمپ میں مقیم ہیں۔
 

عارضی کیمپوں میں مقیم پناہ گزینوں کو یقین ہے کہ آباد کاری کا عمل باقاعدہ شروع ہوتے ہی ان عارضی کیمپوں سے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے گا۔ جہاں ان کے سر پر بھی پختہ چھت ہوگی۔
 

پاکستان کے صوبہ سندھ سے بھارت پہنچنے والے ہندو مہاجرین دہلی کے علاقے مجنوں کا ٹیلہ میں قائم کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان افراد کی باقاعدہ آباد کاری کا عمل ابھی شروع ہونا ہے۔
 

لوک سبھا سے شہریت کا ترمیمی بل منظور ہوچکا ہے۔ جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں عدم تحفظ کا شکار غیر مسلم اقلیتی افراد کو بھارت کی شہریت مل سکے گی۔
 

نئی دہلی میں ہائی وے پر قائم لکڑی کے پل کے نیچے آباد پناہ گزین شمسی توانائی سے ملنے والی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ 
 

کیمپوں میں قیام کے باوجود نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں کی جارہی ہیں۔ 18 سالہ شیام نے اپنی شادی کے موقع پر اپنے رشتے داروں میں کیک تقسیم کیا۔
 

بھارت پہنچنے والی ایک 18 سالہ خاتون آشا کی شادی کا منظر۔ وہ شادی کے بعد بھی دوسرے علاقوں میں منتقلی تک انہی عارضی کیمپوں میں ہی رہیں گی۔
 

30 سالہ شیانی بھی پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت پہنچی ہیں۔ جہاں وہ ایک جھونپڑی میں مقیم ہیں۔
 

پاکستان سے تعلق رکھنے والی ہندو مہاجر خاتون پھلونتی پاکستان میں مقیم اپنے دیگر رشتے داروں سے ویڈیو کال کے ذریعے رابطہ کرتی ہیں۔
 

نئی دہلی کے علاقے مجنوں کا ٹیلہ میں قائم کیمپوں میں آباد ہندو مہاجرین شہریت بل کی منظوری کو اپنے لیے خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والا 13 سالہ مکیش بھی اپنے والدین اور دیگر اہل خانہ کے ہمراہ بھارت پہنچا ہے۔

پناہ گزینوں کی بستی میں مقیم افراد ایک دوسرے سے تعلقات بڑھانے کے غرض سے ایک دوسرے کی جھونپڑیوں میں آتے جاتے ہیں اور اکثر شام کا وقت انہی ملاقاتوں میں گزرتا ہے۔
 

22 سالہ پوجا سولنکی اپنی چار ماہ کی بیٹی کے ہمراہ پاکستان سے بھارت پہنچی ہیں۔