پولیس کا کہنا ہے کہ ایک چوبیس سالہ چیک طالب علم نے پہلے تو اپنے والد کو گولی مارکر ہلاک کر دیا پھر جمعرات ہی کے روز ممکنہ طور پر خود کو ہلاک کرنے سے قبل اپنی یونیورسٹی میں چودہ لوگوں کو ہلاک اور پچیس کو زخمی کر دیا۔
یہ جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں ہی نہیں، بلکہ ملک میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ کا اب تک کا بدترین واقعہ ہے۔
چارلس یونیورسٹی کی ایک گریجویٹ کرس ٹیونا بوریکا جو اسوقت اس مقام سے جہاں یہ شوٹنگ ہوئی پچاس میٹر کے فاصلے پر تھیں کہا کہ اس قسم کے واقعے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ ہر شخص لرز کر رہ گیا ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ اکثر اپنی سابق یونیورسٹی میں آتی ہیں۔ اور اگر وہ غلط وقت پر غلط جگہ پر ہوتیں تو آج کے واقعے سے اس سے بھی زیادہ متاثر ہو سکتی تھیں۔
ایک اور مقامی رہائشی ویرونیکا لاکینووا اسوقت ایک زیر زمین پارکنگ گیراج سے نکل رہی تھیں جب انھوں نے گولیاں چلنے کی دو آوازیں سنیں۔ وہ اپنی کار میں واپس گئیں اور وہاں اسوقت تک چھپی رہیں جب تک ایک پولیس والے نے آکر انہیں گھر پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ایک پڑوسی سے ملیں جنکا کہنا تھا کہ آنہوں نے لوگوں کو یونیورسٹی کی عمارت کے کنگورہ پر کھڑے دیکھا۔
کوئی چھوٹی بالکونی سے کودا اور کوئی شاید یہ نہیں کر سکا۔ کیونکہ دیوار کا کنارہ یا کنگورہ گیلا تھااور اسپر برف تھی۔
حکومت نے متاثرین کو یاد کرنے کے لئے جمہوریہ چیک میں ہفتے کے دن سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ صدر پیٹر پاول نے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا۔
اس خبر کے لئے مواد رائیٹر سے لیا گیا ہے۔