اٹلی میں نوجوان تارکین وطن خواتین کی طرف سے جبری شادی سے انکار بعض اوقات مہلک بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ اٹلی کی پولیس پاکستانی تارکین وطن خواتین کے رواں ماہ قتل کےایسے ہی دو مقدمات میں انصاف کی تلاش میں ہے ۔ ان خواتین کو رشتہ داروں نے ان کی نافرمانی پر مشتعل ہوتے ہوئے مبینہ طور پر ہلاک کر دیا۔
ارم اسلم پاکستان میں پیدا ہوئیں اور ان کی پیدائش کے دن انہیں اپنے ایک کزن سے منسوب کر دیا گیا جو ان سے17 روز بڑا تھا۔ پاکستان سے اٹلی کے ایک زرعی قصبے میں نقل مکانی کے بعد نوجوان ارم کو یہ کزن بھائی جیسا لگتا تھا ۔ پاکستان آنے پر ارم نے محض مزید وقت کے حصول کے لیے اپنی رشتے دار خواتین کو بتایا کہ وہ ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
ارم کی عمر اب 29 سال ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’’رشتے داروں نے ان کی اس شادی کے لیے ہر ممکن کوشش کر لی اور بالآخر ارم کو صاف صاف بتانا پڑا کہ ان پر مزید زور نہ دیا جائے کیونکہ وہ یہ شادی کرنا نہیں چاہتیں ۔ ان کے راضی نہ ہونے پر تمام رشتے دار ان سے خفا ہوگئے۔
اٹلی میں رواں ماہ قتل کے دو مقدمات میں استغاثہ پاکستانی تارکین وطن خواتین کے لیے انصاف کا خواہاں ہے جنہیں مبینہ طور پر والدین کی مرضی سے شادی نہ کرنے پر مار ڈالا گیا۔ان مقدمات سے وہ اختلافات توجہ کا مرکز بنے جنہیں اکثر تارکین وطن کی مذہب پر بنیاد پر قائم صدیوں پرانی اقدار اور انفرادیت پر مبنی مغربی اقدار کے درمیان تصادم کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔
ارم اسلم اپنی صورت حال کے بارے میں وضاحت کرتی ہیں کہ وہ کسی اور شخص سے شادی کی خواہاں تھیں لیکن ’’ان کے عزیزو اقارب ایسا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ہم لوگوں کے خیال میں محبت کا کوئی وجود نہیں۔ ‘‘وہ مزید کہتی ہیں کہ محبت کو ’’گناہ‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔
ارم اسلم نے اپنے چہرے کو ایک رنگ برنگے سکارف سے ڈہانپے ہو ئے یہ بات بتائی۔ وہ اپنا چہرہ اس لیے دکھانا نہیں چاہتیں کیونکہ انہیں 15 ہزار نفوس پر مشتمل گواستالا قصبے میں اپنے پاکستانی ہمسایوں کی خفگی کا ڈر ہے۔
ارم اسلم تو شادی سے بچنے کے لیے جرمنی چلی گئیں لیکن 18 سالہ سمن عباس کے لیے کوئی راہ فرار نہ تھی۔ ارم اسلم کی طرح وہ بھی نوعمری میں اٹلی کے زرعی قصبے نوویلارا آگئیں جو ارم اسلم کے قصبے سے محض11کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
جب وہ اٹلی پہنچی تھی تو اس وقت وہ حجاب استعمال کرتی تھی۔ لیکن اس نے جلد ہی مغربی طور اطوار اپنا لیے اور سوشل میڈیا پر دکھائی دینے لگی۔ ایک پوسٹ میں اسے ایک سٹریٹ میں اپنے بوائے فرینڈ کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا گیا ۔اطالوی تفتیش کاروں کے مطابق اس تصویر نے اس کے والدین کو مشتعل کیا جو اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں ایک رشتے دار سے کرنا چاہتے تھے۔
نومبر میں سمن عباس کی لاش نوویلارا فارم ہاؤس کے کھنڈرات سے ملی ۔ اسےآخری بار 30اپریل 2021میں اپنے والدین کے ساتھ دیکھا گیا ۔ نگران کیمرے کی ویڈیو میں وہ ان کے ساتھ تربوزوں کے فارم کی طرف جا رہی تھیں جہاں ان کے والد کام کرتے تھے ۔ چند روز کے بعد اس کے والدین میلان سے پاکستان چلے گئے۔ اطلاع کے مطابق سمن عباس نے اپنے بوائے فرینڈ کو بتایا تھا کہ اسے اپنی جان کا خطرہ ہے کیونکہ اس نےپاکستان میں بڑی عمر کے ایک شخص سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ اسے ممکنہ طور پر گلا گھونٹ کر مارا گیا کیونکہ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔
اب عباس کے قتل کے حوالے سے اس کے ایک چچا اور کزن کو فرانس سے اور دوسرے کزن کو سپین سے تحویل میں لیا گیا ہے ۔ اس قتل کے سلسلے میں اس کے والدشبیر عباس کو پنجاب کے ایک گاؤں میں گرفتار کرکے مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کی والدہ پر بھی الزام ہے لیکن اس کے بارے میں معلومات موجود نہیں ۔
شبیر عباس کے وکیل افتخار محمود نے اٹلی کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ نوجوان مقتولہ کا خاندان بے گناہ ہے ۔اٹلی میں پاکستان کے سفیر علی جاوید نے شبیر عباس کو تحویل میں دینے کی اطالوی درخواست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت کو ایسا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں لیکن پاکستان اوراٹلی کے درمیان حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔
سفیر علی جاوید نے جبری شادیوں کے لیے ’’انفرادی جہالت‘‘ کو مورد الزام ٹھہرایا جن کی پاکستان میں اجازت نہیں ۔اٹلی نے 2019 میں کسی بھی اطالوی شہری کو ملک یا ملک سے باہر جبری طور پر شادی کے لیے آمادہ کرنے کو تشدد کے داخلی قوانین کے تحت جرم قرار دیا تھا۔
SEE ALSO: بھارت: کم عمرلڑکیوں سے شادی پر بھارت میں 1800 افراد گرفتارسپین میں پولیس نے دو بہنوں کے باپ کو حراست میں لیا تھا جنہیں مبینہ طور پر اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ خاندان سے ملنے کے لیے پاکستان گئی تھیں ۔اطلاع کے مطابق ان دونوں بہنوں نے اپنے شوہروں کو سپین لانے سے انکار کیا تھا جن سے ان کی جبری شادیاں ہوئی تھیں۔
یورپ میں پاکستانی کمیونٹی کی سب سے بڑے مرکز برطانیہ میں حکومت کے جبری شادیوں کے یونٹ نے انتباہ کیا کہ جبری شادیوں کا معاملہ کسی ایک ملک، مذہب یا کلچر سے منسوب نہیں۔ یونٹ کے مطابق اعدادوشمار سے اس ’’زیادتی کے مکمل پیمانے‘‘ کا علم نہیں ہوتا کیونکہ جبری شادی ایک ’’ پوشیدہ جرم‘‘ ہے۔ اٹلی میں مسلمان کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والی دو تنظیمیں عباس کے مقدمے کی پیروی کر رہی ہیں۔
دسمبر میں اٹلی کے شمالی شہر بریسکیا میں تین پاکستانی تارکین وطن کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ ان میں چار لڑکیوں کے والدین اور بھائی شامل تھے ۔ یہ افراد لڑکیوں کو مارنے پیٹنے اور اسکول جانے کی اجازت نہ دینے کے قصوروار پائے گئے تھے ۔
عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ والدین نے ان لڑکیوں کو دھمکایا تھا کہ اگر انہوں نے طے شدہ شادیوں سے انکار کیا تو ان کا حشر بھی ’’اس پاکستانی لڑکی‘‘جیسا ہوگا۔ عدالت کے مطابق یہ حوالہ25 سالہ ثنا چیمہ کا تھا جسے 2018 میں پاکستان پہنچنے پر ہلاک کر دیا گیا تھا اور مبینہ طور پر ایسا اس کے والدین کی ایما پر ہوا تھا۔ اب بریسکیا میں استغاثہ چیمہ کے والد اور بھائیوں پر ان کی غیرحاضری میں مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ان پر’’اپنے انتخاب کے سیاسی حق کی خلاف ورزی پر قتل‘‘ کا الزام ہے۔
چیمہ کے خاندان نے بتایا کہ اٹلی واپس لوٹنے سے پہلےثنا کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ لیکن بریسکیا میں اس کے دوستوں نے شہادت دی کہ ثنا چیمہ نے انہیں بتایا تھا کہ اس کے والدین اس کی شادی زبردستی اس کے ایک کزن سے کرنا چاہتے ہیں ۔ ان دوستوں نے ثنا چیمہ کے فیس بک اکاؤئٹ کا حوالہ دیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس کے والدین نے اس کا پاسپورٹ اور ٹیلی فون چھین لیا ہے ۔ چیمہ کی آٹوپسی سے بھی معلوم ہوا کہ اس کی موت کی ممکنہ وجہ گلا گھونٹ کر مارنا تھی ۔
بریسکیا کی پراسیکیوٹر جنرل گیدورسپولی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اٹلی میں کیس کی سماعت کرنے والے استغاثہ کا کہنا ہے کہ ’’کسی کے ساتھ رہنا یا شادی کرنا ایک سیاسی حق ہے جس کی بھرپور ضمانت دی جاتی ہے‘‘۔
اس رپورٹ کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ سے لیا گیا ہے ۔