'وبا کے ایام میں محبت'

یاور عباس اور نور ظہیر نے شادی کر لی۔ یاور کی عمر 100 سال اور نور ظہیر کی 60 سال سے زیادہ ہے۔

کولمبیا کے نوبیل انعام یافتہ ادیب گیبرئیل گارشیا مارکیز کا ناول وبا کے ایام میں محبت مقبول ترین کہانیوں میں سے ایک ہے۔

ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن بیچ میں سماج آ جاتا ہے۔ لڑکی کی کہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ اس کا شوہر ڈاکٹر ہے اور وبا کے دنوں میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے قومی ہیرو ہے۔ کئی دہائیوں کی ازدواجی زندگی کے بعد ڈاکٹر کا انتقال ہو جاتا ہے۔ لڑکی کا عاشق دوبارہ اس کی زندگی میں آتا ہے اور دونوں ڈھلتی ہوئی عمر کے باوجود شادی کر لیتے ہیں۔

نور اور یاور کی کہانی اس سے تھوڑی سے مختلف ہے لیکن بعض باتیں ملتی جلتی بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں محبت کی ایک کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ مثلا یہ کہ آج کل وبا کے ایام ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں نے ڈھلتی ہوئی عمر کے باوجود شادی کرلی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یاور عباس کی عمر 99 سال ہے اور ستمبر میں 100ویں سالگرہ منائیں گے۔ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں اور بی بی سی کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے بہت سے لوگ ان سے واقف ہیں۔ انھوں نے فلمیں بھی بنائی ہیں۔

نور ظہیر کو بھی ہندوستان پاکستان میں بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ وہ کئی کتابیں لکھ چکی ہیں اور ایکٹوسٹ ہیں۔ جو انھیں نہیں جانتے، وہ ان کے والد سجاد ظہیر کو پہچانتے ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور ترقی پسند ادیب تھے۔

نور ظہیر اور یاور عباس نے 27 مارچ کو شادی کی تقریب رکھی تھی لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے خدشہ ہوا کہ کچھ گڑبڑ نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ 17 مارچ ہی کو جیون ساتھی بن گئے۔

یاور عباس نے پاکستانی روزنامے ڈان کو بتایا کہ برطانوی حکومت 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو مشورہ دینے والی تھی کہ وہ گھر سے نہ نکلیں۔ یہ خبر ملی تو وہ سیدھے میرج رجسٹرار کے پاس پہنچے اور دریافت کیا کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی پابندی کی صورت میں وہ 27 مارچ کو شادی نہیں کر سکیں گے۔ انھوں نے فوری طور پر شادی کا فیصلہ کیا۔ میرج رجسٹرار نے کہا کہ اس کے پاس ایک گھنٹے بعد کا وقت ہے یا اگلی صبح کا۔ اس وقت گواہ نہیں آ سکتے تھے، اس لیے اگلی صبح تک کا انتظار کر لیا گیا۔

یاور عباس کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے وہ برطانوی فوج میں بطور فوٹوگرافر ملازم تھے اور 1945 میں ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے جاپان کے ہتھیار ڈالنے کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں وہ بی بی سی کے لیے کام کرنے لگے اور 2009 تک وقفے وقفے سے خدمات انجام دیتے رہے۔

یاور عباس سے پوچھا گیا کہ انھیں 100 سال کی عمر میں شادی کی کیا سوجھی؟ انھوں نے کہا کہ اصل وجہ تو محبت ہے۔ ہم ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میری عمر کیا ہے۔ نور بھی 60 ویں سالگرہ منا چکی ہیں۔ لیکن عمروں کے فرق کی اہمیت نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم ایک ساتھ خوش ہیں۔

نور ظہیر نے اپنے والد کی روایت کو ہر طرح سے برقرار رکھا ہے۔ وہ انھیں کی طرح کمیونسٹ پارٹی کی رکن ہیں۔ انھیں کی طرح ادب سے وابستگی ہے۔ انھیں کی طرح حکومت کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ وہ انڈین پیپلز تھیٹر کی صدر رہ چکی ہیں۔

نور ظہیر سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ کرونا وائرس سے خوفزدہ ہیں؟ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ وہ ایک ایکٹوسٹ کے طور پر ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں جاتی رہی ہیں جہاں صحت کے سنگین مسائل رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شادی کے ابتدائی دن وہ گھر میں رہ کر کتابیں پڑھیں گے اور خوب باتیں کریں گے۔

نور نے بتایا کہ وہ دس سال سے واقف تھے لیکن ایک دوسرے کو جاننے کا موقع اکتوبر میں لندن کے فیض امن میلے میں ملا۔ دوستی بڑھی تو دونوں نے فیصلہ کیا کہ اسے مضبوط رشتے میں باندھ لینا چاہیے۔

نور ظہیر 15 کتابیں لکھ چکی ہیں جن میں مائی گاڈ از اے وومین اور ڈینائیڈ بائی اللہ شامل ہیں۔ انھیں اپنی محبت کی کہانی لکھنے کے لیے کسی گیبرئیل گارشیا مارکیز کی ضرورت نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وبا کے ایام میں اپنی محبت کی کہانی وہ خود لکھ ڈالیں۔