فرانس میں اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایمانوئل میخوان کو فاتح قرار دیا گیا ہے۔ سخت مقابلے کے اس انتخاب میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی راہنما میرین لے پین ان کے مدمقابل تھیں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان نہ صرف اندرونی بلکہ یورپ، نیٹواور دنیا میں فرانس کے کردار جیسے عوامل پر سخت نظریاتی فرق پایا جاتا ہے۔
انتخابات میں فتح کے فوراً بعد اپنی تقریر میں میخوان نے کہا کہ ’’ ملک میں بہت سے لوگوں نے مجھے صرف اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ انہیں میرے نظریات پسند ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کو وہ دور رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے رائٹرز نے وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب ملک میں97 فیصد ووٹوں کی گنتی ہو چکی تھی، تب میخواں کو 57.4 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک ٹویٹ میں فرانس کے رہنما میخواں کو یہ کہتے ہوئے مبارکباد دی ہے کہ وہ ان کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی سمیت یورپ کے دیگر رہنماؤں نے بھی میخواں کے لیے مبارکباد کے پیغام بھجوائے ہیں۔ زیلنسکی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور متحد یورپ کے لیے نئی مشترکہ کامیابیوں کے لیےمل کر آگے بڑھیں گے۔