فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں نے امریکی کانگریس کے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے وابستہ رہے۔
بدھ کو واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ ایران کے پاس کبھی جوہری ہتھیار نہیں آنے چاہئیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ معاہدے کو برقرار رکھا جائے۔
اپنے 49 منٹ طویل خطاب میں فرانسیسی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران معاہدے کی سخت مخالفت کا براہِ راست حوالہ تو نہیں دیا لیکن انہوں نے کانگریس کے ارکان پر زور دیا کہ وہ امریکہ کے اس معاہدے سے جڑے رہنے کے لیے اپنا کردار کریں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیش رو براک اوباما کے دورِ صدارت میں طے پانے والے اس معاہدے کے کڑے ناقد ہیں اور بارہا اس معاہدے کو "وحشیانہ" اور "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے اس سے الگ ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ آئندہ ماہ اس معاہدے کے مستقبل اور اس کے تحت ایران کو حاصل رعایتیں برقرار رکھنے یا واپس لینے کا فیصلہ کریں گے۔
لیکن ایران کے ساتھ 2015ء میں یہ معاہدہ کرنے والی دیگر پانچ عالمی طاقتیں – فرانس، جرمنی ، برطانیہ، روس اور چین – مسلسل امریکہ پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اس معاہدے سے جڑا رہے اور کسی یک طرفہ اقدام سے باز رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
معاہدے کے تحت اپنی جوہری سرگرمیاں ترک کرنے کے عوض ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں جب کہ اسے ان اشیا کی بین الاقوامی تجارت کی اجازت بھی دے دی گئی تھی جن پر پہلے پابندی عائد تھی۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے پر پوری طرح عمل کر رہا ہے اور اگر امریکہ نے اس کے باوجود معاہدہ توڑا تو وہ بھی اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے میں آزاد ہوگا۔
بدھ کو اپنے خطاب میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ امریکہ کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر مذاکرات کیے جانے چاہئیں جن میں ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے تجربات اور شام، یمن، لبنان اور عراق میں اس کی مداخلت کے معاملات بھی شامل ہوں۔
تاہم ایران کے صدر حسن روحانی پہلے ہی عالمی طاقتوں کے ساتھ کسی اور معاہدے یا موجودہ معاہدے میں کسی تبدیلی کا امکان مسترد کرچکے ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر میخواں نے امریکہ کی تاریخ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکہ کو مل کر 21 ویں صدی کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی اختیار کرسکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں دنیا کے آگے بڑھنے کا سفر نہیں رکے گا۔
فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ مغرب، قوم پرستی پر مشتمل جذبات کو اس لبرل نظام پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا جو مغربی ملکوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد طے کیا تھا۔
صدر میخواں نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے یہ خطاب امریکہ کے اپنے تین روزہ دورے کے آخری روز کیا جس کے دوران ارکانِ کانگریس بار بار اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔
اپنی تقریر میں صدر میخواں نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق 2015ء میں پیرس میں طے پانے والے عالمی معاہدے میں امریکہ کے شامل رہنے کی حمایت کرنے پر ارکانِ کانگریس کا شکریہ بھی ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ ایک دن امریکہ دوبارہ اس معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پیرس معاہدے کو امریکہ کے تجارتی اور معاشی مفادات کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرلیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سالہ دورِ صدارت کے دوران کسی سربراہِ مملکت کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ تھا جسے 'اسٹیٹ وزٹ' قرار دیا گیا تھا۔
اس دورے کے دوران صدر ٹرمپ اور صدر میخواں کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات کا بارہا اظہار ہوا جس کے باعث تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ فرانسیسی صدر اپنے امریکی ہم منصب کو بعض اہم عالمی معاملات پر اپنے اتحادیوں کے تحفظات پیشِ نظر رکھنے اور ان سے ہم آہنگ موقف اپنانے پر قائل کرسکتے ہیں۔