’بھارتی شہریوں کا کہنا ہے کہ جیسے بھارت کا بالی ووڈ دنیا بھر میں مشہور ہے ویسے ہی 'پاکستان کا ٹرک آرٹ' مشہور ہے‘۔ حیدر علی کی وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو۔
یوں تو پاکستان میں آرٹ کو ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے بہت سارے فنکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھا کر دنیا بھر میں نام پیدا کیا ہے وہیں پاکستان کو ایک الگ پہچان اور شہرت دینے والا فن ’پاکستانی ٹرک آرٹ‘ دنیا بھر میں خوب نام پیدا کر رہا ہے جس سے پاکستان کا ایک مثبت اور خوب صورت چہرہ دنیا بھر میں روشناس ہو رہا ہے۔
پاکستانی ٹرک آرٹ سے تیار کئے گئے رنگ برنگے خوب صورت ڈیزائنوں، پھول پتیوں اور مختلف نقش و نگار سے مزین یہ دیوہیکل ٹرک جب ملکی سرحدوں کے باہر لمبی مسافتوں پر نکلتے ہیں تو 'ٹرک آرٹ' کو دیکھ کر بآسانی پاکستانی آرٹ کو پہچانا جاتا ہے۔
صوبہ ِبلوچستان سے تعلق رکھنے والے عبدالوحید کراچی میں ٹرکوں پر مختلف نقش و نگار بنانے میں عبور حاصل کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ عبد الواحد نے کراچی میں ٹرک آرٹسٹ حیدر علی سے متاثر ہو کر اس کام کو دیکھا اور کام سیکھنے کی جستجو انہیں کراچی لے آئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ، ’زمانہ ِطالبعلمی میں میری ڈرائنگ اچھی تھی جب میں نے اس ٹرک آرٹ کو دیکھاتو مجھے اس کام کو باقاعدہ سیکھنے کا شوق پیدا ہوا‘۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کے صوبے بلوچستان میں اس کام کو سکھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی لیے انہوں نے ٹرک آرٹ کا کام سیکھنے کیلئے کراچی کا رخ کیا۔
پاکستان کے ٹرک آرٹ کو دنیا بھر میں منوانے میں ایک ہاتھ پاکستانی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی کا بھی ہے جنہوں نے دنیا کے کئی ممالک میں جاکر پاکستان کے اس منفرد کام کو منوایا اور خوب داد وصول کی۔
وی او اے سے خصوصی گفتگو میں پاکستانی ماہر ٹرک آرٹسٹ حیدر علی نے بتایا کہ، ’ ٹرک آرٹ پاکستان میں 1960سے شروع ہوا جب پاکستان میں بیرون ِممالک سے ٹرک پاکستان آنا شروع ہوئے تھے۔
اس سے پہلے یہ کام گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑیوں پر ہوا کرتا تھا۔ پھر جب ٹرک آئے تو ٹرک پر رنگ روغن کا کام ہونےلگا اور پھول پتیاں غرضیکہ ہر قسم کے ڈیزائن، انسانی شکلیں اور مختلف تحریروں پر مبنی مختلف رنگوں کا استعمال کرکے یہ آرٹ 'ٹرک آرٹ' کی صورت میں ڈھل گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ، ’ایک ٹرک کو تیار کرنے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لگ جاتے ہیں۔ باقی ٹرک کے سائز اور کام پر منحصر ہے، جبکہ برانڈ نیو ٹرک پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے۔ جبکہ ایک ٹرک کی تیاری میں ایک سے دو ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جسمیں دس سے بارہ مزدور کام کرتے ہیں‘۔
ٹرک آرٹ کی محنت سے پرانے سے پرانے ٹرک پر ایسے خوبصورتی سے سجایاجاتا ہے کہ یہ تمام ٹرک نئے جیسے معلوم ہوتے ہیں، گویا کہ چلتا پھرتا آرٹ کا نمونہ۔ کراچی میں ٹرک تیار کرنے کے آرڈرز مختلف شہروں اور صوبوں سے بھی آتے ہیں جسمیں آزاد کشمیر، بلوچستان، اندرونِ سندھ اور پنجاب وغیرہ شامل ہیں۔
حیدر علی پچھلے پچیس برسوں سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے اور انہوں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’جب ہم والد صاحب کے ساتھ یہاں کام کرنے والوں کو بیٹھ کر دیکھا کرتے بیرون ممالک کے افراد اور سیاح یہاں سے گزرتے تو اس آرٹ کو بہت سراہتے اور اپنی استعمال کی اشیا پر رنگوں سے ڈیزائن بنواتے تھے اور باہر لے کر جاتے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات پہلے جیسے نہیں رہے جسکے باعث یہ ٹرینڈ نسبتاً کم ہو گیا ہے۔
وہ اب تک کئی افراد کو ٹرک آرٹ کے حوالے سے تربیت بھی دے چکے ہیں اور چند نوجوان بھی ان سے تربیت حاصل کر رہے ہیں جو اب یہیں کام کر رہے ہیں اس سمیت انھوں نے بیرون ِممالک کے کئی لوگوں کو بھی اسکی تربیت دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، ’ایک مکمل ٹرک آرٹسٹ بننے میں کم از کم چار سال کا عرصہ لگتا ہے‘۔
پاکستان میں عدم توجہ، جبکہ بیرون ممالک پذیرائی
پاکستان کو ایک منفرد پہچان دلانے والے 'ٹرک آرٹ' کو پاکستان میں تو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا مگر دنیا کے کئی ممالک میں اس کام کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ٹرک آرٹسٹ حیدر علی بتاتے ہیں کہ، ’پاکستان میں اسے فن نہیں مانا جاتا جبکہ لندن اولمپک گیمز میں ہم نے پاکستانی ٹرک آرٹ کو پیش کرکے کافی شہرت پائی جبکہ کینیڈا، استنبول، ترکی، انقرہ، اور بھارت میں بھی اسے متعارف کروایا ہے‘۔
حیدر علی بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال بھارت کے شہر کلکلتہ میں سب سے بڑے تہوار درگا پوجا کے موقع پر ٹرک آرٹ کے مقابلے میں پاکستان نے پہلا انعام جیتا تھا۔ بقول حیدر علی، ’بھارتیوں کا کہنا ہے کہ جیسے بھارت میں بالی ووڈ مشہور ہے ویسے ہی پاکستان کا ٹرک آرٹ مشہور ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے ہمیں آج تک کوئی 'لیٹر آف ایپریسی ایشن‘ یا تعریفی سند نہیں دی گئی جبکہ بیرون ِممالک میں اس منفرد کام کے باعث ہمیں کئی اعزاز اور سرٹیفیکیٹس مل چکے ہیں۔ افسوس کہ اپنے وطن میں ہمیں کوئی مقام حاصل نہیں'۔
'پاکستانی ٹرک آرٹ' نام کا اعزاز
’پاکستانی ٹرک آرٹ‘ نام بھی بیرون ِممالک سے ملا ہوا ایک نام ہے۔ حیدر علی بتاتے ہیں کہ یہ نام انگزیروں کی جانب سے ملا ہے جنھوں نے اسکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے 'ٹرک آرٹ' کا نام دیا۔ ہمارے ملک میں اسے کوئی نہیں مانتا تھا اور ابھی تک اسے باقاعدہ طور پر کسی کام میں شمار نہیں کیا جاتا جبکہ پاکستان میں اس سے قبل اس آرٹ کو صرف پینٹنگ اور 'پھول پتی' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ٹرک آرٹسٹ کم، آرٹسٹ زیادہ
پاکستان میں مصوری کے آرٹسٹ بہت زیادہ ہیں جبکہ ٹرک آرٹسٹ کم ہیں بلکہ یوں کہیئے کہ یہ فنکار تو اب نایاب ہیں۔ آپ کو آرٹسٹ تو مل جائیں گے مگر ٹرک آرٹسٹ نہیں ملیں گے ایک وقت تھا جب ٹرکوں پر رنگ برنگے پھول پتیاں بنانے والے اپنے آپکو آرٹسٹ ہی نہیں مانتے تھے مگر جب سے یہ کام دنیا بھر میں مشہوری ہونےلگا تو ان لوگوں کو بھی مشہوری ملی۔
ٹرک ڈرائیوروں کے من پسند نقوش
کسی بھی ٹرک پر بنے مختلف نقوش اور تصاویر ٹرک لوڈرز اور اسکے ڈرائیور کے ذوق کا احاطہ کرتی ہیں اسمیں رنگ برنگے پھول پتیاں ڈیزائن، قدرتی مناظر، موتی سیپیاں، تصاویر، قومی ہیروز، مشہور اداکاروں کی تصاویر، مونا لیزا، سیاستدانوں کی تصویریں، مختلف تحاریر، شاعری اور مذہبی تحریریں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
پاکستانی ٹرک آرٹس اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ، ’زیادہ تر سندھی ڈرائیورز مٹکےوالی خاتون بنوانا پسند کرتے ہیں جبکہ ان کا دماغ یہ ہے کہ بس اسے دیکھنےوالا پسند کریں ان میں زیادہ تر عاشق مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ رنگوں کا انتخاب بھی زیادہ تر مالک اور ڈرائیور کے حساب سے ہوتا ہے۔ فرمائش کے حساب سےمختلف زبانوں میں شعر و شاعری بھی لکھواتے ہیں‘۔
پاکستانی ٹرک آرٹ سے تیار کئے گئے رنگ برنگے خوب صورت ڈیزائنوں، پھول پتیوں اور مختلف نقش و نگار سے مزین یہ دیوہیکل ٹرک جب ملکی سرحدوں کے باہر لمبی مسافتوں پر نکلتے ہیں تو 'ٹرک آرٹ' کو دیکھ کر بآسانی پاکستانی آرٹ کو پہچانا جاتا ہے۔
صوبہ ِبلوچستان سے تعلق رکھنے والے عبدالوحید کراچی میں ٹرکوں پر مختلف نقش و نگار بنانے میں عبور حاصل کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ عبد الواحد نے کراچی میں ٹرک آرٹسٹ حیدر علی سے متاثر ہو کر اس کام کو دیکھا اور کام سیکھنے کی جستجو انہیں کراچی لے آئی۔
پاکستان کے ٹرک آرٹ کو دنیا بھر میں منوانے میں ایک ہاتھ پاکستانی ٹرک آرٹسٹ حیدر علی کا بھی ہے جنہوں نے دنیا کے کئی ممالک میں جاکر پاکستان کے اس منفرد کام کو منوایا اور خوب داد وصول کی۔
وی او اے سے خصوصی گفتگو میں پاکستانی ماہر ٹرک آرٹسٹ حیدر علی نے بتایا کہ، ’ ٹرک آرٹ پاکستان میں 1960سے شروع ہوا جب پاکستان میں بیرون ِممالک سے ٹرک پاکستان آنا شروع ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ، ’ایک ٹرک کو تیار کرنے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لگ جاتے ہیں۔ باقی ٹرک کے سائز اور کام پر منحصر ہے، جبکہ برانڈ نیو ٹرک پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے۔ جبکہ ایک ٹرک کی تیاری میں ایک سے دو ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جسمیں دس سے بارہ مزدور کام کرتے ہیں‘۔
حیدر علی پچھلے پچیس برسوں سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے اور انہوں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا ہے۔
وہ اب تک کئی افراد کو ٹرک آرٹ کے حوالے سے تربیت بھی دے چکے ہیں اور چند نوجوان بھی ان سے تربیت حاصل کر رہے ہیں جو اب یہیں کام کر رہے ہیں اس سمیت انھوں نے بیرون ِممالک کے کئی لوگوں کو بھی اسکی تربیت دی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، ’ایک مکمل ٹرک آرٹسٹ بننے میں کم از کم چار سال کا عرصہ لگتا ہے‘۔
پاکستان میں عدم توجہ، جبکہ بیرون ممالک پذیرائی
پاکستان کو ایک منفرد پہچان دلانے والے 'ٹرک آرٹ' کو پاکستان میں تو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا مگر دنیا کے کئی ممالک میں اس کام کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ٹرک آرٹسٹ حیدر علی بتاتے ہیں کہ، ’پاکستان میں اسے فن نہیں مانا جاتا جبکہ لندن اولمپک گیمز میں ہم نے پاکستانی ٹرک آرٹ کو پیش کرکے کافی شہرت پائی جبکہ کینیڈا، استنبول، ترکی، انقرہ، اور بھارت میں بھی اسے متعارف کروایا ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے ہمیں آج تک کوئی 'لیٹر آف ایپریسی ایشن‘ یا تعریفی سند نہیں دی گئی جبکہ بیرون ِممالک میں اس منفرد کام کے باعث ہمیں کئی اعزاز اور سرٹیفیکیٹس مل چکے ہیں۔ افسوس کہ اپنے وطن میں ہمیں کوئی مقام حاصل نہیں'۔
'پاکستانی ٹرک آرٹ' نام کا اعزاز
’پاکستانی ٹرک آرٹ‘ نام بھی بیرون ِممالک سے ملا ہوا ایک نام ہے۔ حیدر علی بتاتے ہیں کہ یہ نام انگزیروں کی جانب سے ملا ہے جنھوں نے اسکی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے 'ٹرک آرٹ' کا نام دیا۔ ہمارے ملک میں اسے کوئی نہیں مانتا تھا اور ابھی تک اسے باقاعدہ طور پر کسی کام میں شمار نہیں کیا جاتا جبکہ پاکستان میں اس سے قبل اس آرٹ کو صرف پینٹنگ اور 'پھول پتی' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ٹرک آرٹسٹ کم، آرٹسٹ زیادہ
پاکستان میں مصوری کے آرٹسٹ بہت زیادہ ہیں جبکہ ٹرک آرٹسٹ کم ہیں بلکہ یوں کہیئے کہ یہ فنکار تو اب نایاب ہیں۔ آپ کو آرٹسٹ تو مل جائیں گے مگر ٹرک آرٹسٹ نہیں ملیں گے ایک وقت تھا جب ٹرکوں پر رنگ برنگے پھول پتیاں بنانے والے اپنے آپکو آرٹسٹ ہی نہیں مانتے تھے مگر جب سے یہ کام دنیا بھر میں مشہوری ہونےلگا تو ان لوگوں کو بھی مشہوری ملی۔
ٹرک ڈرائیوروں کے من پسند نقوش
کسی بھی ٹرک پر بنے مختلف نقوش اور تصاویر ٹرک لوڈرز اور اسکے ڈرائیور کے ذوق کا احاطہ کرتی ہیں اسمیں رنگ برنگے پھول پتیاں ڈیزائن، قدرتی مناظر، موتی سیپیاں، تصاویر، قومی ہیروز، مشہور اداکاروں کی تصاویر، مونا لیزا، سیاستدانوں کی تصویریں، مختلف تحاریر، شاعری اور مذہبی تحریریں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
پاکستانی ٹرک آرٹس اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ، ’زیادہ تر سندھی ڈرائیورز مٹکےوالی خاتون بنوانا پسند کرتے ہیں جبکہ ان کا دماغ یہ ہے کہ بس اسے دیکھنےوالا پسند کریں ان میں زیادہ تر عاشق مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ رنگوں کا انتخاب بھی زیادہ تر مالک اور ڈرائیور کے حساب سے ہوتا ہے۔ فرمائش کے حساب سےمختلف زبانوں میں شعر و شاعری بھی لکھواتے ہیں‘۔