ملالہ کہتی ہیں کہ یہ کہانی ہے 6 کروڑ 10 لاکھ بچوں کی جنھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
لندن —
وادی سوات کی کم سن طالبہ ملالہ یوسفزئی، جو اپنی بولتی آنکھوں اور دھیمے لہجے سے لوگوں میں اس احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ، بیٹیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک بیٹے کو۔ اس کی یہ سوچ نفی کر رہی تھی طالبان کی اس روایت کی جن کے لیے لڑکیوں کا اسکول جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
لہذا اسے سزا دینے کی ٹھان لی گئی اور براہ راست اس کے سر اور گردن پرگولی ماری گئی تاکہ اس کے ساتھ اس کی سوچ کو بھی ہمیشہ کے لیےختم کر دیا جائے۔ لیکن اس کی جرات کو سلام پیش کیا دنیا کی ہر قوم نے ہر جگہ اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگی گئیں اور یہ سب کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ملالہ کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
ملالہ اپنے بچپن کی یادوں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو ایک کہانی کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے جارہی ہے۔ ملالہ اپنی خود نوشت ’’آئی ایم ملالہ‘‘ یعنی ’’ میں ملالہ ہوں‘‘ کےنام سے لکھ رہی ہے ۔
ملالہ کی اس کتاب کی اشاعت برطانیہ، امریکہ اور انڈیا میں کی جائے گی جبکہ ، اسی برس اکتوبر کے مہنے تک شائع کر دی جائے گی۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ملالہ کی کتاب کے حقوق دو پبلشرز کو فروخت کئے گئے ہیں۔ جن میں وائلڈین فیلڈ نکولسن کو برطانیہ اور دولت مشترکہ کے رکن ممالک میں اس کتاب کی اشاعت کا حق حاصل ہو گا جبکہ باقی جگہوں پر لٹل براؤن کو ملالہ کی کتاب کی چھپائی کا حق حاصل ہو گا ۔
اس کتاب کے سلسلے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ کتاب کے حقوق تقریباً 20 لاکھ پاؤنڈز میں فروخت کئے گئے ہیں۔
ملالہ کہتی ہیں کہ ’’میں اپنی کہانی بیان کرنا چاہتی ہوں مگر یہ کہانی ہے 6 کروڑ 10 لاکھ بچوں کی جنھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ میں اس مہم کا حصہ بننا چاہتی ہوں جو اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔‘‘
کوئین الزبتھ ہسپتال برمنگھم میں ملالہ کے سر کی متعدد سرجریاں کی گئی ہیں اور ان کی قوت سماعت کو بھی بحال کیا گیا ہے ۔ گذشتہ ماہ وہ صحت یاب ہو کر اپنے گھر منتقل ہو گئی ہیں اور اس وقت وہ برمنگھم میں لڑکیوں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں آٹھویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’’مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے میری آواز ان تمام لوگوں تک پہنچے گی جو یہ جان سکیں گے کہ دنیا میں کچھ بچوں کے لیے تعلیم کا حصول کس قدر مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ملالہ کہتی ہیں کہ ’’ اکتوبرکی نو تاریخ تھی وہ اپنے امتحانات دے رہی تھیں اور اسکول سے گھر واپسی کے لیے ایک ٹرک میں اپنی دوستوں اور چند اساتذہ کے درمیان پھنس کر بیٹھی ہوئی تھیں اس ٹرک کو اسکول وین کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اس کے پیچھے سیٹیں لگی ہوئی تھیں اور یہ پیچھے سے کھلا ہوا تھا ،گرد کی وجہ سے ہمیں باہر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔‘‘
’وائلڈین فیلڈ نکولسن‘ کی پبلشنگ ڈائریکٹر آرزو تحسین کہتی ہیں کہ ملالہ بہت کم عمری میں زندگی کے تلخ تجربات سے گزری ہے اور ’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کی یہ کہانی خصوصاً نئی نسل کو متاثر کرے گی جو آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا سب کا حق سمجھتے ہیں۔‘‘
ملالہ کو اس واقعہ کے بعد دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں سراہا گیا ہے ملالہ کو یہ اعزاز حاصل ہو اہے کہ وہ نوبل انعام کے لیے سب سے کم عمر حقدار کی حیثیت سے چنی گئی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے 10 نومبر کو ملالہ ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
لہذا اسے سزا دینے کی ٹھان لی گئی اور براہ راست اس کے سر اور گردن پرگولی ماری گئی تاکہ اس کے ساتھ اس کی سوچ کو بھی ہمیشہ کے لیےختم کر دیا جائے۔ لیکن اس کی جرات کو سلام پیش کیا دنیا کی ہر قوم نے ہر جگہ اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگی گئیں اور یہ سب کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ملالہ کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
ملالہ اپنے بچپن کی یادوں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو ایک کہانی کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے جارہی ہے۔ ملالہ اپنی خود نوشت ’’آئی ایم ملالہ‘‘ یعنی ’’ میں ملالہ ہوں‘‘ کےنام سے لکھ رہی ہے ۔
ملالہ کی اس کتاب کی اشاعت برطانیہ، امریکہ اور انڈیا میں کی جائے گی جبکہ ، اسی برس اکتوبر کے مہنے تک شائع کر دی جائے گی۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ملالہ کی کتاب کے حقوق دو پبلشرز کو فروخت کئے گئے ہیں۔ جن میں وائلڈین فیلڈ نکولسن کو برطانیہ اور دولت مشترکہ کے رکن ممالک میں اس کتاب کی اشاعت کا حق حاصل ہو گا جبکہ باقی جگہوں پر لٹل براؤن کو ملالہ کی کتاب کی چھپائی کا حق حاصل ہو گا ۔
اس کتاب کے سلسلے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ کتاب کے حقوق تقریباً 20 لاکھ پاؤنڈز میں فروخت کئے گئے ہیں۔
ملالہ کہتی ہیں کہ ’’میں اپنی کہانی بیان کرنا چاہتی ہوں مگر یہ کہانی ہے 6 کروڑ 10 لاکھ بچوں کی جنھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ میں اس مہم کا حصہ بننا چاہتی ہوں جو اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔‘‘
کوئین الزبتھ ہسپتال برمنگھم میں ملالہ کے سر کی متعدد سرجریاں کی گئی ہیں اور ان کی قوت سماعت کو بھی بحال کیا گیا ہے ۔ گذشتہ ماہ وہ صحت یاب ہو کر اپنے گھر منتقل ہو گئی ہیں اور اس وقت وہ برمنگھم میں لڑکیوں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں آٹھویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’’مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے میری آواز ان تمام لوگوں تک پہنچے گی جو یہ جان سکیں گے کہ دنیا میں کچھ بچوں کے لیے تعلیم کا حصول کس قدر مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ملالہ کہتی ہیں کہ ’’ اکتوبرکی نو تاریخ تھی وہ اپنے امتحانات دے رہی تھیں اور اسکول سے گھر واپسی کے لیے ایک ٹرک میں اپنی دوستوں اور چند اساتذہ کے درمیان پھنس کر بیٹھی ہوئی تھیں اس ٹرک کو اسکول وین کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اس کے پیچھے سیٹیں لگی ہوئی تھیں اور یہ پیچھے سے کھلا ہوا تھا ،گرد کی وجہ سے ہمیں باہر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔‘‘
’وائلڈین فیلڈ نکولسن‘ کی پبلشنگ ڈائریکٹر آرزو تحسین کہتی ہیں کہ ملالہ بہت کم عمری میں زندگی کے تلخ تجربات سے گزری ہے اور ’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کی یہ کہانی خصوصاً نئی نسل کو متاثر کرے گی جو آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا سب کا حق سمجھتے ہیں۔‘‘
ملالہ کو اس واقعہ کے بعد دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں سراہا گیا ہے ملالہ کو یہ اعزاز حاصل ہو اہے کہ وہ نوبل انعام کے لیے سب سے کم عمر حقدار کی حیثیت سے چنی گئی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے 10 نومبر کو ملالہ ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔