ملیریا کے حفاظتی ٹیکے بنانے میں پیش رفت

ملیریا کے حفاظتی ٹیکے بنانے میں پیش رفت


آسٹریلیا کے ماہرین نے کہا ہے کہ ملیریا میں مبتلا ہونے کے بعد انسان کے معدافعتی نظام میں پروٹینز کا جوگروپ پیدا ہوتا ہے، اس سےملیریا کی ایک ویکسین تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ملیریا کے خلاف یہ کامیابی میلبورن کے والٹر اینڈ ایلزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں کو حاصل ہوئی ہے۔

کئی عشروں سے دنیا بھر کے سائنس دان ملیریا سے بچاؤ کی کوئی ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ وہ مرض ہے جس سے ہرسال دنیا بھر میں لگ بھگ دس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔

مچھروں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی اس بیماری کی وجہ سے ہر 30 سیکنڈ میں ایک بچہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور افریقی ممالک کے لوگ اس مرض کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

ملیریا ایک پیچیدہ پیراسائٹ سے پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی ویکسین سے اس کا علاج دشوار ہے۔

والٹر اینڈ ایلزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا کہناہے کہ اس بیماری سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

تاہم انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ کوئی نئی ویکسین تیار کی جاسکتی ہے کیونکہ ملیریا کا نشانہ بننے والے علاقوں کے لوگوں میں بالآخر اس مرض کے خلاف کچھ قوت معدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ نے ایسے مدافعتی مادوں کا پتا چلانے کے لیے جو جسم میں کوئی قدرتی معدافعتی ردعمل پیدا کرتے ہوں اور جن سے ملیریا کا علاج ممکن ہو ، بین الاقوامی مطالعاتی جائزوں کے نتائج کا تجزیہ کیا ۔ انہیں ایک ایسے پروٹین کا پتہ چلا جو ملیریا کے پیرا سائٹس سے پیدا ہوتا ہے اور جو اس کی معدافعت کرتا ہے۔

ڈاکٹر جیمز بی سن کا کہنا ہے کہ ایک کامیاب ویکسین جسم کے دفاعی نظام کو ملیریا کے پیراسائٹ بنانے سے روکنے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ ویکسین بنیادی طور پر جسم کے ان حصوں میں جہاں ملیریا کے جراثیم حملہ آور ہوں ،مدافعتی نظام کے اس عمل کو تیز کرنے کی کوشش کرے گی ۔وہ کہتے ہیں کہ آپ دیکھتے ہیں کہ بچے ملیریا میں بار بار مبتلا ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا جسم ان جراثیموں کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتا ہے ۔ یہ ویکسین اسی عمل کی رفتار تیز کر دے گی تاکہ بہت سے لوگ ان جراثیموں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہونے سے پہلے ہلاک اور شدید بیمار ہونے سے بچ جائیں ۔

میلبورن کے ماہرین کو توقع ہے کہ وہ کسی مؤثر ویکسین میں استعمال کے لیے سب سے موثر مرکبات کا پتہ چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اگرچہ ماہرین کو اب تک جو کامیابیاں ملی ہیں اس پر ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مزید کلینیکل تجربات کی ضرورت ہے اور کوئی مؤثرحفاظتی ٹیکہ تیار کرنے میں کم از کم دس سال لگ جائیں گے ۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ملیریا قابل علاج مرض ہے اور اس کی روک تھام ممکن ہے ۔ دنیا بھر کی لگ بھگ نصف آبادی اس مرض کے خطرے سے دوچار ہے، خاص طور پر غریب ملکوں میں رہنے والے لوگ۔

ملیریا سب سے زیادہ اموات سب صحارا افریقہ میں ہوتی ہیں، لیکن ایشیا ، یورپ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں بھی ملیریا حملہ آور ہوتا ہے۔