ملائیشیا کے ایوانِ زیریں نے منگل کو ایک قانون کا مسودہ منظور کیا ہے جس کے تحت دہشتگردی کے شبہ میں گرفتار ہونے والوں کو بغیر فردِ جرم عائد کیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس قانوں کو "پیچھے کی طرف ایک قدم" قرار دیا ہے۔
ملائیشیا کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ملائیشیا میں اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے درپیش خطرے سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس قانون کو ’’ملائشیا میں انسانی حقوق کے لیے پیچھے کی طرف ایک بہت بڑا قدم‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ داخلی سکیورٹی ایکٹ کا احیا ہے جسے 2012 میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ میں ایشیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر فِل رابرٹسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’’بغیر مقدمے کے غیر معینہ مدت تک حراست کو بحال کر کے ملائیشیا نے ریاست کی طرف سے سیاسی محرکات پر مبنی بے جا اقدامات کی یلغار کا دروازہ دوبارہ کھول دیا ہے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ داخلی سکیورٹی ایکٹ کی 2012 میں تنسیخ کے بعد یہ دروازہ بند ہو چکا ہے۔‘‘
توقع ہے کہ ملائیشیا کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا اور بادشاہ بھی اس مسودے کو منظور کر لیں گے جس کے بعد یہ ملکی قانون کا حصہ بن جائے گا۔
اس منظوری سے دو روز قبل ہی ملائیشیا کی سکیورٹی فورسز نے 17 لوگوں کو اسلحہ حاصل کرنے کے لیے بینکوں، پولیس سٹیشنوں اور ملٹری چوکیوں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کے شبہ میں گرفتار کیا ہے۔
اتوار کو ہونے والی ان گرفتاریوں میں دو ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے شام میں شدت پسندوں کو تربیت دی تھی۔