ملائیشیا کی پارلیمنٹ نے پیر کے روز لازمی سزائے موت کے خاتمے ، سزائے موت پائے جانےوالے جرائم کی تعداد کم کرنے اور عمر بھر کی قید کی سزا کےخاتمے کے لیے قانونی اصلاحات کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی ۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا انسانی حقوق کے گروپس نےمحتاط طریقے سے خیر مقدم کیا ہے ۔
ملائیشیا میں 2018 سے پھانسی پر پابندی ہے جب اس نے پہلی بار سزائے موت کو یکسر ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم بعد میں حکومت کو کچھ جماعتوں کی طرف سے سیاسی دباؤ کا سامنا ہوا اور اس نے ایک سال بعد اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ سزائے موت برقرار رکھے گی، لیکن عدالتوں کو اپنی صوابدید پر اس سزا کو کسی دوسری سزا سے بدلنے کی اجازت دے دے گی ۔
منظور شدہ ترامیم کے تحت ، سزائے موت کے متابادلات میں کوڑے مارنا اور 30 سے 40 سا ل کے درمیان قید کی سزا شامل ہے ۔ قید کی نئی مدت ان تمام سابقہ دفعات کی جگہ لے لے گی جس میں مجرم کو اس کی پوری زندگی تک قید رکھنے کے لیے کہا گیا ہے ۔
ملائیشیا کے قانون میں عمر قید کی سزا کےلیےبیان کردہ مقررہ 30 سال کی مدت برقرار رکھی جائے گی۔
کچھ ایسے سنگین جرائم کے لیے بھی جو موت کا باعث نہیں بنتے ،سزائے موت کو ختم کر دیا جائے گا ، مثلاً کسی آتشیں اسلحے کا استعمال یا اس کی اسمگلنگ کرنا اور اغوا کرنا۔
SEE ALSO: ایران: اٹھارہ اور انیس برس کے دو نوجوانوں کو سزائے موت کا سامناملائیشیا کا یہ اقدام ایسے میں سامنے آیا ہے جب جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ پڑوسیوں نے سزائے موت کے استعما ل میں اضافہ کر دیا ہے۔ سنگا پور نے گزشتہ سال 11 لوگوں کو منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی تھی اور فوجی حکمرانی کے میانمار میں جنتا کی طرف سے چار سر گرم کارکنوں کے خلاف عشروں میں پہلی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا ۔
ملائیشیا کے وزیر قانون رام کرپا ل سنگھ نے ان اقدامات پر پارلیمانی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ سزائے موت ایک ناقابل تنسیخ سزا ہے اور جرائم کو روکنے میں غیر موثر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سزائے موت سے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جس کے لیے اسے نافذ کیا گیا تھا۔
منظور شدہ ترامیم کا اطلاق ان 34 جرائم پر ہوگا جن پر اس وقت موت کی سزا لاگو ہے ۔ ان میں قتل اور منشیات کی اسمگلنگ شامل ہیں ۔ ان میں سے11 پر سزائے موت ایک لازمی امر ہے ۔ نئے ضابطوں کے تحت 1300 سے زیادہ ان قیدیوں کی سزاؤں پر نظر ثانی ہو سکتی ہے ، جو اس وقت موت یا قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں اور جن میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنی تمام قانونی اپیلیں ختم کر چکے ہیں۔
سزائے موت کے خلاف کام کرنے والے ادارے اینٹی ڈیتھ پینلٹی ایشیا نیٹ ورک کی ایگزیکٹو رابطہ کار ڈوبی چیو نے کہا ہے کہ ترامیم کی کارروائی سزائے موت کے مکمل خاتمے کی جانب ایک پہلا اچھا قدم ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ہم زیادہ تر درست راستے پر ہیں ، یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ ریاست کسی کو ہلاک کررہی ہے اور کیا ریاست کے پاس اس قسم کا کوئی اختیار ہونا چاہئے ۔ لازمی سزا کا خاتمہ ہمارے لیے اس پر غور وخوص کے آغاز کا ایک اچھا موقع ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے ۔