حال ہی میں گنی سے اپنے خاندان کے ہمراہ مالی واپس آنے والی ایبولا سے متاثرہ دوسالہ بچی انتقال کر گئی ہے۔
عالی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بچی اور اس کے والدین کا دوران سفر بہت سے لوگوں سے رابطہ ہوا اور اس بنا پر ایبولا وائرس کے مالی میں پھیلنے کا بھی خدشہ بڑھ گیا ہے۔
مالی کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور یہاں ایبولا وائرس سے نمٹنے کے انتظامات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ملک میں ایبولا کا پہلا کیس رپورٹ ہونے کے بعد دارالحکومت باماکو میں حکام نے ایبولا سے متاثر ہونے و الوں تک فوری رسائی کی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
محکمہ صحت کے عہدیداروں نے اس بچی کے والدین اور اس سے رابطے میں رہنے والوں کے بھی طبی تجزیے شروع کر دیے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت 43 افراد زیر نگہداشت ہیں۔
یہ بچی اپنے خاندان کے ساتھ گنی سے لائی گئی تھی اور اسے سرحد کے قریب مالی کے مغربی علاقے کائیس کے ایک اسپتال میں رکھا گیا ہے۔
مالی میں ایبولا سے نمٹنے کی کوششوں کے ذمہ دار ڈاکٹر سامبا سو کا کہنا ہے کہ "اس وقت سب سے اہم چیز جو ہمیں کرنی چاہیے وہ یہ کہ نگرانی کے نظام کو نافذ کریں اور کوشش کریں کہ تمام مشتبہ کیسز تک پہنچنے کی کوشش کریں۔"
جمعہ کو کائیس کے علاقے میں تمام اسکول بند رہے۔ دارالحکومت باماکو نے حکومت طبی کارکنوں کو ایبولا کے مریضوں کے نگہداشت کی تربیت فراہم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔
مالی مغربی افریقہ کا واحد ملک ہے جس نے گنی کے ساتھ اپنی سرحد بند نہیں کی تھی۔ گنی میں مارچ میں پہلا ایبولا کیس رپورٹ ہوا تھا۔
کائیس سونے کی کانوں والا علاقہ ہے اور یہاں زیادہ تر کان کن روزانہ کی بنیاد پر پڑوسی ملک گنی سے آتے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سو نے کہا کہ مالی نے سرحد کے ساتھ پولیس بھی تعینات کر دی ہے تاکہ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ لیکن ایک وسیع اور آسان سرحد ہونے کی وجہ سے یہاں سے آرپار جانے والے ہر شخص پر نظر رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور امریکہ کے مرکز برائے انسداد امراض پر مشتمبل ایک ٹیم نے مالی کا پانچ روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے جس میں اس نے ایبولا سے نمٹنے کے لیے اس ملک کی تیاری کا جائزہ بھی لیا۔
ایبولا وائرس سے اب تک 4900 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان میں سے اکثریت کا تعلق مغربی افریقہ کے تین ملکوں گنی، لائبیریا اور سیری الیون سے ہے۔