پشاور میں نامعلوم مسلح نقاب پوش افراد نے ایک احمدی ڈاکٹر منصور احمد کے کلینک میں گھس کر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ احمدی ڈاکٹر حملے میں محفوظ رہے۔
پولیس حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اسکیم چوک بڈھ بیر میں تھانہ انقلاب کے حدود میں ہفتے کی شام دو مسلح نقاب پوش احمدی ڈاکٹر منصوراحمد کے کلینک میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی جسس سے کلینک میں موجود نرس شاہد جان ہلاک ہوگئے اور ایک اور ملازم عبدالقیوم زخمی ہوا ۔
اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر ہلاک ہونے والے شاہد جان کی لاش کو پوسٹ مارٹم اور زخمی کو علاج کے لیے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا۔
مسلح نقاب پوش فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔
پولیس افسر عرفان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں میں ایک برقع پوش تھا۔ دو افراد پر فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے۔
عرفان خان نے کہا کہ حملے کے وقت ڈاکٹر منصور احمد بیٹے ڈاکٹر رفیع کے ہمراہ چائے کے وقفے کے دوران گھر گئے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر منصور کا گھر بھی کلینک سے ملحق ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ مقتول شاہد جان اور زخمی ملازم کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے ہے جب کہ شاہد جان پنجاب کے ضلع جھنگ کے مکین تھے۔
پولیس نے واقعے کے بعد فوری طور پر کسی کوحراست میں نہیں لیا۔ پولیس افسر عرفان خان کے بقول تفتیشی ٹیم نے موقع سے خالی خول اور دیگر اہم شواہد جمع کر لیے ہیں جب کہ اطراف کے علاقوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو چیک کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انجمن احمدیہ کے پنجاب میں مرکزی دفتر ربوہ سے جاری بیان میں اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے جب کہ ماضی میں اسی علاقے میں قتل کیے گئے ایک اور ڈاکٹر کے قاتلوں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
انجمنِ احمدیہ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات کی وجہ حکومت کے ناقص حفاظتی اقدامات کو قرار دیتی ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کےلیے سرگرم بین الاقوامی تنظیمیں بھی حکومتی اداروں کی اقلیتوں کے جان ومال کی تحفظ میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
انجمنِ احمدیہ کے مطابق گزشتہ دو برس میں پشاور میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ پانچ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ ہلاک ہونے والوں میں شامل امریکی شہری ظاہر نسیم کو جولائی 2020 میں پشاور کی ایک عدالت میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں مبینہ قاتل اور ایک وکیل سمیت تین افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔