نیویارک کے طبی ماہرین نے ایک شخص کو، جس کی ایک آنکھ حادثے میں ضائع ہو چکی تھی، عطیے میں ملنے والی انسانی آنکھ لگا دی ہے جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی پہلی پیوند کاری ہے۔ لیکن یہ جاننے میں ابھی کچھ عرصہ لگے گا کہ آنکھ کا ٹرانسپلانٹ کس حد تک کامیاب رہا ہے۔
دنیا میں انسانی آنکھ کا پہلا عطیہ وصول کرنے و الے شخص کا نام آرون جیمز ہے۔ ہائی وولٹ پاور لائنز پر ایک حادثے میں جیمز کے چہرے کے زیادہ تر حصے کو نقصان پہنچا تھا اور ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔
نیویارک یونیورسٹی کے لینگون ہیلتھ کے طبی ماہرین اور سرجنوں کو توقع ہے کہ آنکھ کا یہ ٹرانسپلانٹ بہتر نتائج دے گا۔
نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم نے جمعرات کو بتایا کہ عطیہ کی گئی آنکھ کافی صحت مند دکھائی دے رہی ہے اور توقع ہے کہ وہ کام کرے گی۔
جیمز کا کہنا ہے کہ میں اس ٹرانسپلانٹ سے مطمئن ہوں۔ فی الحال میں اپنی پلکیں نہیں جھپک سکتا، لیکن مجھے آنکھ میں سنسنی سی محسوس ہو رہی ہے۔
آرون جیمز کی عمر 46 سال ہے۔ وہ آرکنسا کے علاقے ہاٹ اسپرنگز کا رہائشی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر نئے تجربے کے لیے کسی پہلے شخص کا ہونا ضروری ہے۔ آپ اس سے سیکھتے ہیں اور اس سے اگلے شخص کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اب تک دنیا میں آنکھ کے صرف ایک حصے، کارنیا، کی پیوندکاری کی جاتی ہے جس سے بینائی کی ایک خاص قسم کی خرابی کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن پوری آنکھ کی پیوندکاری کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں آنکھ کی پتلی، اس میں خون کی فراہمی اور اسے دماغ کے اس حصے سے جوڑنا شامل ہے جو آنکھ سے برقی پیغامات موصول کر کے دیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ سرجری کا پہلا تجربہ ہے۔
چاہے اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، لیکن اس سرجری سے طبی ماہرین کو یہ سمجھنے اور جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ انسانی آنکھ کی پیوندکاری کے بعد اس کے کام کرنے کے مراحل کیا ہیں۔
ٹرانسپلانٹ کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈو راڈرنگوز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دعویٰ تو نہیں ہے کہ اس سے بینائی لوٹ آئے گی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم اس عمل کے ایک قدم مزید قریب ہو گئے ہیں۔
سرجری کے بعد ڈاکٹروں نے جیمز کی آنکھ کے معائنے کے بعد بتایا کہ آنکھ کی رگوں میں خون کا بہاؤ بہتر ہے اور یہ امکان نہیں ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام عطیہ کی جانے والی آنکھ کو مسترد کر دے گا۔
طبی ماہرین جیمز کے دماغ کا اسکین بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے اشارے ملے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ آنکھ دماغ کو کچھ سگنلز بھیج رہی ہے۔
آرون جیمز کی کہانی کافی دکھ بھری ہے۔ وہ ایک پاور لائن کمپنی کےملازم تھے۔ جون 2021 میں انہیں ہائی وولٹ کی پاور لائن پر کام کے دوران شدید برقی جھٹکا لگا۔ جس سے ان کا بایاں بازو، چہرے کا کچھ حصہ اور بائیں آنکھ ضائع ہو گئی۔ کئی سرجریز کی مدد سے وہ کچھ بہتر تو ہوئےلیکن ان کی ناک اور ہونٹوں سمیت کئی زخم اب بھی باقی ہیں۔
جمیز کو آنکھ کا عطیہ ایک 30 سالہ شخص سے ملا ہے۔ اس کا نام اعضا کے عطیہ دہندگان کی فہرست میں شامل تھا۔ امریکہ میں بہت سے لوگ اپنا اندراج اعضا کے عطیہ دہندگان کے طور پر کرواتے ہیں۔ انتقال کے بعد ان کے اعضا ضرورت مندوں کو لگا دیے جاتے ہیں۔
30 سالہ شخص کے گردے، جگر اور لبلبہ دوسرے ضرورت مند مریضوں کو لگایا گیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے مرنے کے بعد تین افراد کو نئی زندگی دی۔
آنکھ کی پیوندکاری کی یہ سرجری انتہائی پیچیدہ تھی۔ اس میں سرجنوں نے 21 گھنٹے صرف کیے۔انہوں نے عطیے میں ملنے والی آنکھ کے خلیوں کو جیمز کی آنکھ کے بصارت کے خلیوں سے جوڑا اور اسے فعال کرنے کے لیے سٹیم سیلز بھی نصب کیے۔
جیمز کو چہرے کی پیچیدہ سرجری سے بھی گزرنا پڑا ہے اور ان کے چہرے کے نئے اعصاب آہستہ آہستہ بن رہے ہیں۔ وہ ابھی تک اپنی پلکوں کو حرکت نہیں دے پا رہے۔ لیکن سرجن کا کہنا ہے کہ ان کی آنکھ کے اردگرد کے اعصاب میں خفیف سی حرکت کی نشاندہی ہوئی ہے۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ ایم آر آئی کے دوران جب ٹرانسپلانٹ کی جانے والی آنکھ پر روشنی پڑی تو اس نے دماغ کو سگنلز بھیجے جنہیں اسکینر نے ریکارڈ کیا۔
نیویارک یونیورسٹی کے نیورولوجی کے ڈاکٹر اسٹیون گیلیٹا نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ بصارت کے سگنلز ہوں اور ہو سکتا ہے کہ درست نتیجہ اخذ نہ کیا جا سکا ہو۔ صحیح کیا ہے، یہ جاننے میں مزید وقت اور مطالعے کی ضرورت ہے۔
(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)