فوجی دستاویزات کا افشا، میننگ کا بیان حلفی

میننگ مقدمے سے بچنے کے بہانے تلاش کرتا رہا ہے، اور وکی لیکس کو دستاویزات افشا کرنے کے بارے میں اقبالِ جرم کی پیشکش کی ہے
امریکی فوجی اور عراق جنگ میں شرکت کرنے والے بریڈلی مینگ نے مقدمے کی باقاعدہ سماعت سے قبل اپنا بیان حلفی دیا ہے۔ جب سے اُنھیں وکی لیکس ویب سائٹ کو ہزاروں کلاسی فائیڈ دستاویزات افشا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکی تاریخ کا خفیہ فوجی اطلاعات ظاہر کرنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے، یہ اُن کا پہلا عام بیان تھا۔

بریڈلی میننگ کے حامی، جو سماعت کے دوران سردی اور بارش میں فوجی اڈے کے باہر کھڑے رہے، وہ اُنھیں ایک ہیرو مانتے ہیں۔

امریکی فوج کے استغاثے کےنزدیک میننگ ایک غدارہے، جس نے ہزاروں خفیہ دستاویزات لیک کیں اور اس طرح دشمن کو مدد فراہم کی۔ سزا کی صورت میں 24 سالہ سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار کو عمر قید ہو سکتی ہے۔

میننگ مقدمے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اور وکی لیکس کو دستاویزات افشا کرنے کے بارے میں اقبالِ جرم کی پیشکش کی ہے۔

ویب سائٹ کے بانی، جولیان اسانج نے اِس ہفتے میننگ کے مقدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خود امریکی فوج کے خلاف مقدمہ ہے۔

میننگ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ حراست کےدوران وہ اذیت کا شکار بنے ہیں۔ جمعرات کو اپنے بیان حلفی میں اُنھوں نے کہا کہ گرفتاری کے بعد اُنھیں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ اُنھوں نے اسے ایک پنجرہ قرار دیا جہاں اُن کا دم گھٹ رہا تھا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس دلیل کے باعث میننگ کے لیے عوام میں ہمدری کے جذبات پیدا ہوئے ہیں، جس سے اُس نقصان کی طرف سے دھیان ہٹا ہے جو دستاویز افشا ہونے کے باعث ہوا۔

دفاعی تجزیہ کار لارنس کورب کہتے ہیں کہ اِس سے ایک اخلاقی مسئلےکی طرف بھی سوال اٹھتا ہے۔


عراق میں خدمات انجام دیتے ہوئے، میننگ نے جنگ کے خلاف آواز بلند کی اور اُن کی طرف سے لیک کیے گئے کلاسیفائیڈ مواد سے امریکی فوجیوں کی مبینہ زیادتیوں کے طرف نشاندہی ہوتی ہے۔

تاہم، اس مرحلے پر یہ واضح نہیں کہ میننگ کی طرف سے بڑے پیمانے پر دستاویزات کے افشا کیے جانے سے قومی سلامتی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

مقدمے سے یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں آیا میننگ نفسیاتی طور پر فوج میں خدمات دینے کے قابل تھا۔

اُن کے سابق افسر اُنھیں جذباتی طور پر خلفشار کا شکار فرد قرار دیتے ہیں جسے اپنی جنس کے بارے میں شک تھا اور کوئی بھی بات کرتے ہوئے گھبراتا تھا۔

کورب کےخیال میں، یہ مقدمہ دراصل فوج کے’اسکریننگ کے عمل‘ میں اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔

مقدمے پر اثرانداز ہونے کےخوف کےباعث پینٹاگان حکام اِس مقدمے کےبارے میں اظہارِ خیال سے اجتناب کر تے رہے ہیں۔

متوقع طور پر مقدمے کی باقاعدہ سماعت میں تقریباً دو ماہ تک لگ سکتے ہیں۔