پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو ساتھی طلبا نے مبینہ طور پر توہین مذہب سے متعلق مواد کی تشہیر پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق مشعال خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا طالب تھا اور اس پر الزام تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر توہین مذہب سے متعلق مواد شیئر کرتا تھا۔
مردان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس محمد عالم شنواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ساتھی طالب علموں نے صوابی سے تعلق رکھنے والے مشعال خان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
’’طالب اکٹھے ہوئے، اُنھیں مشال خان کے بارے میں شک تھا کہ اُس نے توہین مذہب سے متعلق کچھ کیا ہے۔۔۔ اس پر تشدد کیا گیا اور ہلاک ہو گیا۔‘‘
بتایا جاتا ہے کہ مشعال خان کا ایک ساتھی طالب علم اس دوران زخمی بھی ہوا۔
بعد ازاں پولیس نے مشعال خان کی لاش تحویل میں لے کر اُسے پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا۔ پولیس کے مطابق اس واقعہ میں ملوث متعدد طالب علموں کو تحویل میں بھی لیا گیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد عبدالوالی خان یونیورسٹی میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی، جس میں انتظامیہ نے یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مشعال خان پر الزام تھا کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر مبینہ طور پر احمدی فرقے کے نظریے کا پرچار کر رہا تھا، تاہم پولیس یا یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کا الزام ایک حساس معاملہ ہے اور محض الزامات کی بنا پر کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ توہین مذہب کے الزام میں سزا یافتہ کسی شخص کی سزائے موت پر تو عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن محض توہین مذہب کے الزام پر ساٹھ سے زیادہ لوگوں کو تشدد کر کے ہلاک کیا جا چکا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ’’توہین مذہب‘‘ سے متعلق مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی موجودگی سے متعلق دائر درخواستوں کی لگ بھگ ایک ماہ تک سماعت کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے 31 مارچ کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ ایک آگاہی مہم چلائے کہ گستاخانہ مواد کی اشاعت کی قانونی طور پر سزا کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا معاملہ رواں سال کے اوائل سے خاصا گرم رہا اور اسے ہٹانے کے لیے حکومت کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک سے بھی رابطہ کیا گیا۔