شادی کہاں کرنی چاہیے؟ رشتے داروں میں یا خاندان سےباہر کے لوگوں میں؟ اور کیا بہت قریبی رشتوں داروں، بالخصوص ان خاندانوں میں، جن کے ساتھ خون کا رشتہ بھی ہو، شادی کرنا مناسب ہے؟ یہ سوال ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے بعد مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال پیدا ہونے والے کم ازکم 700 معذور بچوں کا تعلق ایسے پاکستانی تارکین وطن کے گھرانوں سے ہوتا ہے جن کی شادیاں اپنے فرسٹ کزنوں یعنی چچا، ماموں، خالہ یا پھوپھی زاد بہن بھائیوں سے ہوئی ہوتی ہیں۔
شادی زندگی کاایک اہم ترین فیصلہ ہے، جس کا تعلق صرف دو افراد، یا دو خاندانوں سے ہی نہیں ، بلکہ آنے والی نسلوں سے بھی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خاندانی دباؤ اور جذبادیت سے ہٹ کربہت سمجھداری سے کرنا چاہیے ۔ کیونکہ فرسٹ کزنوں میں شادی سے معذور بچے کی پیدائش کا خطرہ دس گنا بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی ذہنی یا کسی دوسری قسم کی معذوری نہ صرف والدین کے لیے عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے اور ان کی زندگی مسائل میں گھر جاتی ہے بلکہ معذور بچے کو بھی اپنی پوری زندگی پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے اور فلاحی ملکوں کے وسائل پر ، جہاں معذور افراد کی دیکھ بھال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ، بوجھ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد گھرانوں میں معذور بچوں کے بڑھتی ہوئی شرح پیدائش نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے مختلف پہلوؤں پر سنجیدگی سے غورکررہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں پیدائشی معذوری کی وجہ عام طورپر جینیاتی ہوتی ہے۔ اگر کسی خاندان میں کوئی جینیاتی خرابی موجود ہو تو خاندان کے اندرشادی سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ دنیا میں آنکھ کھولنے والا نیا بچہ اپنے ساتھ کوئی ذہنی یا جسمانی معذوری بھی لے کر آئے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فرسٹ کزنوں میں شادی کے نتیجے میں ایسے بچوں کی پیدائش کا خطرہ عام حالات کی نسبت دس گنا زیادہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی پیدائشی نقص ہو، ان کی سماعت یا بصارت میں کوئی خرابی ہو۔ وہ ذہنی طورپر معذور ہوں یا ان میں نظام ہضم کی خرابیاں ہوں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کم سنی میں ہی ہلاک ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ شرح فرسٹ کزنوں کی شادیوں میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسے بچے پیدائش کے وقت یا اپنی عمر کے ابتدائی چند ماہ کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں اور معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک تہائی بچے اپنی پانچویں سالگرہ منانے سے پہلے انتقال کرجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹیلی ویژن چینل فور کے تحت کرائے جانے والے اس مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ معذور بچوں کی پیدائش کا مسئلہ پاکستانی نژاد تارکین وطن میں بہت نمایاں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں آباد اکثر پاکستانی خاندان بچوں کی شادیاں اپنے ملک جاکر ذات برادری اور خاص طورپر فرسٹ کزنوں کے ساتھ کردیتے ہیں۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شادی کے ذریعے پاکستان سے لائی جانے والی لڑکیاں یا لڑکے کم تعلیم یافتہ ہونے اور معاشرتی تفریق کے باعث ایک دوسرے سے نباہ نہیں کرپاتے اور کئی دوسری طرح کے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں جن میں علیحدگی، طلاق اور قانونی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش میں کچھ عرصہ پہلے برطانوی حکومت نےامیگریشن کے لیے تعلیمی معیار مقرر کیا ہے۔
مغربی معاشرے میں فرسٹ کزنوں میں شادی کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، جب کہ مشرقی ملکوں میں ، جہاں زندگی کے ہرشعبے میں ذات برداری کو اہمیت دی جاتی ہے، اکثر لوگ فرسٹ کرنوں میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان میں، جہاں فرسٹ کزنوں میں شادی کارواج عام ہے، بچوں کی معذوری کے حوالے سے ابھی تک کوئی جامع مطالعاتی جائزہ سامنے نہیں آیا۔ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ اس کے نتائج بہت خوف ناک ہوں۔
تاہم ایسے لوگ بھی ایک بڑی تعدادمیں موجود ہیں جو فرسٹ کزنوں سے شادی کے حق میں دلائل کا انبار لگاسکتے ہیں ۔