ناسا کی تیار کردہ خلائی گاڑی ’مارز روور‘ نے مریخ پر ہوائی بگولہ جسے انگریزی میں ’ڈسٹ ڈیول‘ یا گرد کا شیطان بھی کہا جاتا ہے کا پہلی دفعہ مشاہدہ کیا ہے۔ یہ خصوصی گاڑی مریخ کی سطح پر اتاری گئی ہے جو مریخ کی سطح اور فضا کے بارے میں زمینی مرکز کو سائنسی معلومات فراہم کرر ہی ہے۔
مارز روور کا مائیکروفون اس وقت ’آن‘ تھا جب یہ ہوائی بگولہ روور کے اوپر سے گزرا۔ خلائی جہاز نے اس بگولے کی آواز کو ریکارڈ بھی کیا۔
40 کلومیٹر کی رفتار سے چلتے ہوئے اس ہوائی بگولے کی آواز ریکارڈ کرنے میں محض دس سیکنڈ لگے۔ اس ریکارڈنگ میں پریزیورنس نامی خلائی گاڑی پر گرد اور کنکریوں کے ٹکرانے کی آواز سنی جا سکتی ہے۔
منگل کے روز سائنس دانوں نے اپنی نوعیت کی یہ پہلی ریکارڈنگ ریلیز کی ہے۔
SEE ALSO: ناسا کے خلائی کیپسول ’اورین‘ کی چاند کے قریب پروازخبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس ہوائی بگولے کی آواز زمین پر چلنے والے بگولوں سے مماثلت رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ آواز زمین سے کہیں مدہم ہے، کیونکہ مریخ پر فضا زمین کے مقابلے میں لطیف ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ مریخ کی لطیف فضا کی وجہ سے سیارے میں ہوا کا دباؤ بھی زمین سے کم ہے اور ہوا سے پیدا ہونے والی آواز بھی قدرے مدہم ہوتی ہے۔
ہوائی بگولے کے گزرنے کا واقعہ گزشتہ برس واقعہ ہوا تھا اور یونیورسٹی آف ٹولوز کی ناؤمی مرڈوخ کے مطابق یہ بگولہ آناً فاناً مرٰیخ پر بھیجی جانے والی کے اوپر سے گزر گیا اس لیے آڈیو کا دورانیہ بھی بہت مختصر ہے۔
ناؤمی نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق کی اہم رکن ناؤمی کا کہنا تھا کہ بگولے کا یہ مختصر سفر مکمل طور پر ریکارڈ کیا گیا اور’ روور‘ کے موسم کا معائنہ کرنے والے کیمرے نے ڈیٹا جمع کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مریخ پر ہوائی بگولے عشروں سے زمین سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس کی آواز سننے کو ملی ہے۔ سرخ سیارے پر یہ بگولے عام ہیں اور ریکارڈ کیا جانے والا یہ بگولہ 400 فٹ بلند اور 80 فٹ چوڑا تھا۔ یہ بگولہ 16 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔
مارز روور کا مائیکروفون روزانہ دن میں تین منٹ کے لیے کھولا جاتا ہے اور یہ محض اتفاق تھا کہ اس وقت فضائی بگولہ خلائی جہاز کے اوپر سے گزر رہا تھا۔
ناؤمی کا کہنا ہے کہ اس مائیکروفون کی ریکارڈنگ سے سائنس دانوں کو مریخ کی فضا کا معائنہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے حاصل کی گئیں ہیں۔)