فائرنگ کے واقعات سے امریکہ میں گن کنٹرول کا مسئلہ ایک بار پھر زیر بحث

الپاسو میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ایک دوسرے کو دلاسا دے رہے ہیں۔

گزشتہ اختتام ہفتہ 13 گھنٹے کے اندر ہونے والے شوٹنگ کے دو واقعات کے بعد اس سال فائرنگ کے ایسے واقعات کی کل تعداد 250 تک پہنچ گئی ہے جن میں فائرنگ کے ہر واقعہ میں حملہ آور سمیت کم سے کم چار افراد ہلاک ہوئے۔

حالیہ واقعات ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن اور ٹیکساس کے شہر الپاسو میں ہوئے۔ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ان دونوں شہروں میں ان واقعات میں 30 افراد کی ہلاکت ہوئی جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔

ریاست اوہائیو کے تجارتی شہر ڈیٹن میں اتوار کی صبح ایک بجے کے قریب گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ مسلح شخص نے 9 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد پولیس نے مسلح شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اس واقعے سے محض 13 گھنٹے قبل ریاست ٹیکساس کے شہر الپاسو میں فائرنگ کا ایک اور واقعہ ہوا جس میں مسلح شخص نے 20 افراد کو ہلاک اور کم سے کم 26 کو زخمی کر دیا۔ وفاقی اہل کار ان واقعات کو امریکہ کی داخلی دہشت گردی کی کارروائیاں قرار دیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں ٹیکساس کے گورنر کی حمایت میں کہا، ’’خدا آپ سب کے ساتھ ہو۔ ‘‘

انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی ان دونوں واقعات کے حوالے سے ریاستی اور مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

2020 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جواکین کاسترو نے فائرنگ کرنے والے شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیے گئے اشتعال انگیز بیانات سے اندرون ملک دہشت گردوں کو انتہائی رویہ اپنانے میں مدد ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ان بیانات سے سفید فام بالادستی کے حامی افراد کو اس ملک میں زیادہ سے زیادہ زہریلا رویہ اپنانے کا موقع ملا ہے۔ کاسترو کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کو قومی لیڈر کی حیثیت سے اس بات کا انتخاب کرنا ہو گا کہ کیا وہ معاشرتی تقسیم کی آگ بڑھانا چاہتے ہیں یا پھر مختلف پس منظر رکھنے والے امریکیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے خواہش مند ہیں۔

صدر ٹرمپ کے چیف آف سٹاف مِک ملوینی کہتے ہیں کہ ان واقعات کی ذمہ داری سیاسی بیانیے کی بجائے عوامی مقامات پر فائرنگ کرنے والے افراد پر ہی عائد ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات کو سیاسی رنگ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور ہمیں اسے اسی انداز میں دیکھنا ہو گا۔

ملوینی کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو بندوق کا ٹریگر دباتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم اس طرح کے افراد کی تعداد معاشرے میں کم کیسے کریں اور ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ آئندہ انتخاب کی طرف جاتے ہوئے ہم کسی پر اس کا الزام عائد کرنے کی کوشش کریں۔

تاہم ملوینی اور کاسترو دونوں بظاہر اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مہلک ہتھیاروں تک رسائی کو محدود کرنا صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ کاسترو کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا یہ حل ہرگز نہیں ہے کہ بندوقوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا حل اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگ کے یہ ہتھیار، نیم خود کار ہتھیار، ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہ رہیں جو سڑکوں پر جا کر لوگوں کو ہلاک کرتے رہیں۔

مِک ملوینی کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں سب لوگ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے بیمار لوگ جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں انہیں قانونی طور پر ہتھیار خریدنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔ تاہم چیلنج یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی شناخت کیسے کی جائے جو بیمار ذہنیت رکھتے ہوں۔ ملوینی کا کہنا ہے کہ اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیکساس میں فائرنگ شروع ہونے سے تقریباً 20 منٹ پہلے نفرت پر مبنی اور امیگریشن کی مخالفت میں بیانیہ آن لائن دیکھا گیا۔ حکام اس بیانیے کو تخلیق کرنے والوں کا پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈیٹن میں فائرنگ کا شکار ہونے والوں میں حملہ آور کی اپنی بہن بھی شامل تھی۔