افغانستان میں طالبان حکومت نے مولوی عبدالکبیر کو قائم مقام وزیرِاعظم مقرر کردیا ہے۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ملا حسن اخوند کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مولوی عبدالکبیر کو امورِ حکومت چلانے کے لیے عبوری طور پر ذمے داری دی گئی ہے۔
بدھ کو اپنی ٹوئٹس میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ملا حسن اخوند اس وقت قندھار میں زیرِعلاج ہیں اور وہ جلد ہی اپنی ذمے داریوں کو دوبارہ سنبھال لیں گے۔
ان کے بقول اسلامی امارت کے سربراہ کے حکم پر مولوی عبدالکبیر کو ملا محمد حسن اخوند کی جگہ قائم مقام نگران مقرر کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو ایک ذریعے نے بتایا کہ ملا حسن اخوند بیمار ہیں اور جب تک وہ صحت یاب نہیں ہوتے مولوی عبدالکبیر عبوری وزیرِاعظم کے طور پر کام کریں گے۔
طالبان کی جانب سے باضابطہ طور پر یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حسن اخوند کو کیا بیماری ہوئی ہے اور انہیں کیا علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
طالبان کے ایک ذریعے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملا حسن اخوند پیر کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں شریک نہیں تھے اور مولوی عبدالکبیر اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
دوسری جانب افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے عہدے دار حسن حق یار کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملا حسن اخوند کی عمر کی وجہ سے لیا گیا ہے۔
مولوی عبدالکبیر طالبان کابینہ میں ملا حسن اخوند کے بعد سینئر رہنما ہیں اور وہ قطر میں طالبان کے مذاکراتی گروپ کے رکن بھی تھے۔
مولوی عبدالکبیر کون ہیں؟
مولوی عبدالکبیر اس سے قبل طالبان کی عبوری حکومت میں بطور نائب وزیر اعظم فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے ملا حسن اخوند کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ خود میڈیا میں کم ہی نظر آتے تھے تاہم ان کے نائبین ملا عبدالغنی برادر، ملا عبدالسلام اور مولوی عبدالکبیر میڈیا کو انٹرویوز دیتے رہتے ہیں۔
اگرچہ طالبان کی جانب سے ملا حسن اخوند کی بیماری کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی۔ تاہم ذرائع ابلاغ کے مطابق وہ کچھ عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام کی رپورٹ کے مطابق مولوی عبدالکبیر کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا سے ہے۔ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے دور حکومت میں انہوں نے گورنر ننگرہار کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ وہ دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے امن مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
مولوی عبدالکیبر کو عبوری وزیراعظم بنائے جانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک جانب عالمی برادری کا طالبان پر خواتین کے روزگار اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے شدید دباؤ ہے تو دوسری جانب خطے کے ممالک بشمول پاکستان اور چین کی جانب سے طالبان پر سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے ہمسایوں کے تحفظات دور کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی مستقل نہیں ہے: وزیرخارجہ متقیپژواک نیوز کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ مولوی عبدالکبیر کے تقرر کے بعد افغانستان میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں طاقت ہمیشہ سے قندھار کے پاس ہی رہی ہے۔ موجودہ سیٹ اپ کو بھی اگر دیکھا جائے تو حکومت کے تمام امور قندھار سے ہی چلائے جا رہے ہیں۔
مدثر شاہ کے مطابق اعالمی برادری اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک طالبان پر لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے حوالے سے زور دیتے آئے ہیں لیکن طالبان نے تا حال اس حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کی ہے۔
اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ مولوی عبدالکبیر وہی لائن اپنائیں گے جو طالبان کے سپریم لیڈر کی ہو گی۔
ان کے مطابق اس سے قبل تینوں نائب وزرائے اعظم کا تعلق قندھار گروہ سے تھا۔ اب عبدالکبیر کے تقرر سے حقانی گروہ کا ایک ممبر بھی شراکت دار ہو جائے گا جس کے بعد میڈیا میں قندھار اور حقانی گروہ کے درمیان جس سرد جنگ کا ذکر ہوتا تھا اس میں شاید کمی آئے۔