عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں خسرے کی انفیکشن میں اضافے کی روک تھام کیلئے فوری اقدام درکار ہیں کیونکہ یہ انفیکشن خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اس سال یعنی 2019 میں دنیا کے مختلف ملکوں سے اب تک خسرے کے تقریبا تین لاکھ پچاس ہزار کیسز کی اطلاع موصول ہوئی ہے جو 2006 کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ تعداد ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اس وقت کے مقابلے میں بھی یہ اعداد و شمار تین گنا زیادہ ہیں۔ ابھی 2019 کے ختم ہونے میں کچھ ماہ باقی ہیں اس لیے اس تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر علاقے میں خسرے کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور استثنیٰ صرف امریکی خطے میں ہے۔ عالمی ادارے کے ڈیپارٹمنٹ آف ایمیو نائزیشن ویکسینز اور بائو لاجیکلز کی ڈائریکٹر کیٹ او برائن کا کہنا ہے کہ اس اعداد و شمار کے ساتھ دنیا پیچھے کی جانب لوٹ رہی ہے اور 2020 تک اس خطرناک بیماری کے خاتمے کیلئے درست راستے پر نہیں ہے۔ اگر چہ خسرہ خطرناک مرض ہے لیکن اس کی روک تھام بڑی حد تک ممکن ہے۔
ڈائریکٹر کیٹ او برائن کہتی ہیں کہ جہاں تک خسرے کی صورتحال کا تعلق ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے خاص طور پر بچوں کی صحت کیلئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بالغ اور بڑی عمر کے افراد کیلئے اشارہ بھی ہے کہ ہمارے مدافعتی نظام میں بھی کوئی کمی ہے۔
یورپ کی ایک علاقائی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ چار ممالک البانیہ، جمہوریہ چیک، یونان اور برطانیہ ان ملکوں کی صف سے نکل گئے ہیں جن کو خسرے سے پاک ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم آسٹریا اور سوٹزلینڈ خسرے سے پاک ملکوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں اور جہاں گزشتہ 36 ماہ کے دوران اس مرض کے سامنے آنے کی خبر نہیں ملی۔
او برائین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ویکسین نہ ملنے کی کئی وجوہات ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض اوقات والدین کیلئے یہ مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ویکسین کیلئے کسی کلینک تک لے جا سکیں۔ ڈائریکٹر کیٹ او برائن کہتی ہیں کہ ویکسین کے محفوظ ہونے کے بارے میں غلط معلومات کی وجہ سے بھی ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے۔
ڈائریکٹر کیٹ او برائن کا کہنا ہے کہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ترقی یافتہ اور متمول ملکوں میں بعض ایسی کمیونیٹیز موجود ہیں جو اپنے مذہبی اور سماجی اعتقادات کی وجہ سے ویکسین کے استعمال سے گریز کرتی ہیں۔
ڈائریکٹر او برائن توجہ دلاتی ہیں کہ بعض ملکوں میں جنگوں اور حساس صورتحال کے پیش نظر ویکسین کی لوگوں تک فراہمی ہی مشکل ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ویکسین کے استعمال کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی سیاسی تنازعے میں ویکسین کا کوئی رول نہیں ہوتا اور اس لیے اس پر کبھی سیاست نہیں کرنی چاہئے۔
مزید معلومات کیلئے اس کلپ پر کلک کریں:
Your browser doesn’t support HTML5