اگر آپ کو گوشت کھانا پسند ہے اور بیف آپ کی پسندیدہ ڈش ہے تو آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ حال ہی میں امریکی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں سن 2010 کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو بڑے گوشت سے الرجی ہو چکی ہے۔ جب کہ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ انہیں یہ بیماری لگ چکی ہے۔
گوشت کے بارے میں وائٹ میٹ اور ریڈ میٹ کی اصطلاح تو آپ نے اکثر سنی ہو گی۔ وائٹ میٹ چکن اور مچھلی یا دیگر آبی حیات سے حاصل ہونے والے گوشت کو کہا جاتا ہے، جب کہ بکری، بھیٹر اور گائے وغیرہ کے گوشت کو ریڈ میٹ کہتے ہیں۔ ریڈ میٹ عموماً زیادہ ذائقے دار ہوتا ہے، اس میں پروٹین، وٹامنز اور دوسرے صحت بخش اجزاکی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے معالج عموماً بعض صور توں میں بڑا گوشت یا ریڈ میٹ کھانے سے منع کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بکری اور گائے کے گوشت کو بھی دو الگ خانوں میں بانٹ کر انہیں چھوٹا گوشت اور بڑا گوشت کہا جاتا ہے جب کہ ان دونوں میں ذائقے اور ریشوں کے چھوٹا بڑا ہونے کے علاوہ پروٹین، چربی اور دیگر اجزا میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا, ماسوائے اس کے کہ بکری اور بھیٹر کے گوشت میں اومیگا تھری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو نسبتاً فائدہ مند ہے۔
ریڈمیٹ یا بڑے گوشت کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور رپورٹ کے بارے میں بھی سن لیں جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ریڈ میٹ سے ساڑھے چار لاکھ افراد کو الرجی کا مرض لاحق ہو ا جس سے بڑا گوشت کھانے کی ان دس چیزوں میں شامل ہو گیا ہے جن سے امریکہ میں سب سے زیادہ الرجی ہوتی ہے۔
بیماریوں سے روک تھام اور بچاؤ کے امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے تحت شائع ہونے والی ان دونوں رپورٹس کے محقق اور شریک مصنف نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسکات کومنز ہیں۔
صحت کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس الرجی سے ہلاکتوں کی کوئی مصدقہ اطلاع تو نہیں ہے لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ ریڈ میٹ سے ہونے والی الرجی بہت تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتی ہے۔
ایک مریض، برناڈائن ہیلرگرین مین نے بتایا کہ ، "میں نےاپنی الرجی کو کبھی کھانے سے نہیں جوڑا تھا کیونکہ یہ تکلیف مجھے کھانا کھانے کے کئی گھنٹوں کے بعد ہوتی تھی ۔"
بڑے گوشت سے ہونے والے ری ایکشن یا الرجی کو الفا۔گال سنڈروم کہا جاتا ہے۔ یہ گائے ،بھینس، ہرن یا دودھ پلانے والے کسی جانورکا گوشت کھانے سے ہوتا ہے یا یہ ری ایکشن دودھ، جیلیٹن یا دودھ پلانے والے جانوروں کے اجزا سے بنائے گئے دیگر پراڈکٹس کھانے سے بھی ہو سکتا ہے ۔
یہ الرجی کسی جراثیم کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کا سبب الفا گال نامی شوگر ہے جو ان جانوروں کے گوشت اور ان کے تھوک میں پائی جاتی ہے جب یہ شوگر کسی ایسے انسان کی جلد کو چھوتی ہےجو اس سے حساسیت رکھتا ہو تو اس کا مدافعتی ردعمل متحرک ہو جاتا ہے جو شدید الرجی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
2011 میں طبی محققین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اسی طرح کی الرجی جوؤں اور خون چوسنے والے دیگر کیڑوں سے بھی ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک اور مطالعاتی جائزے سے پتا چلا کہ 2017 میں الفا۔گال کے ری ایکشن سے ہونے والی الرجی کے 13 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے تھے جب کہ 2022 میں ایسے کیسز کی تعداد 19 ہزار سے زیادہ تھی۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خون چوسنے والے کیڑوں کے کاٹنے سے الرجی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے معالجین کو الرجی کی اس قسم کو سمجھنے اور اس کے بارے میں زیادہ جاننے کا موقع مل رہا ہے۔
الفا۔گال کی الرجی کی جو ریڈمیٹ یا خون چوسنے والے کیڑوں کے کاٹنے سے ہو سکتی ہے، چند علامتیں یہ ہیں۔ جی متلانا، قے ہونا،بدہضمی، معدے میں شدید درد، سانس لینے میں دشواری، غنودگی، ہونٹوں، زبان اور آنکھوں کا سوج جانا وغیرہ ہیں۔ کھانے پینے کی عمومی چیزوں سے الرجی فوراً ظاہر ہو جاتی ہے جب کہ اس نوعیت کی الرجی ریڈمیٹ کے استعمال یا خون چوسنے والے کیڑے کے کاٹنے کے کئی گھنٹوں کے بعد سامنے آتی ہے۔
ریسرچر ڈاکٹر اسکاٹ کومنز کہتے ہیں کہ کچھ افراد میں یہ الرجی ختم ہو سکتی ہے ، لیکن اس میں اہم بات الرجی کا سبب بننے والی چیز سے بچنا ہے ۔
کومنز کے مریضوں میں 78 سالہ آرٹ ہسٹورین ہیلر گرین مین بھی شامل ہیں ۔ وہ گرمیاں انگوروں کے باغات میں گزارتی ہیں۔جہاں وہ خون چوسنے والے کیڑوں کے کاٹے جانے کا ہدف بنتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان کیٹروں کے کاٹے جانے سے چار بار لائم کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہیں۔لائم کا مرض خون چوسنے والے کیڑوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
پانچ سال پہلے ہیلر کو آدھی رات کے وقت جسم کے مختلف حصوں پر شدید خارش شروع ہو گئی تھی۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ الرجک ری ایکشن تھا۔ لیکن اس وقت تک انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس الرجی کا سبب کیا ہے۔
ہیلر کبھی گوشت کھانے کی عادی نہیں ہیں، لیکن جنوری 2020 میں ایک دن انہوں نےگوشت کا برگر اور پھر اگلی شام باربی کیو کھایا ۔ جس کے چھ گھنٹوں کے بعد انہیں رات کو متلی کی کیفیت محسوس ہوئی اور پھر انہیں پہلے قے اور اسہال آئے اور پھر کمزوری سے چکر آنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے وہ تین بار بے ہوش ہوئیں ۔
اس کے فوراً بعد ان میں الفا ۔گال سنڈروم کی تشخیص ہوئی اور انہیں خون چوسنے والے کیڑوں سے بچنے اوربڑے گوشت اور دودھ سے بنی اشیا سے پرہیز کا مشورہ دیا گیا ۔ جس کے بعد سے انہیں اس نوعیت کی الرجی نہیں ہوئی۔
ہیلر کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ انہیں ڈاکٹر کی بروقت ہدایات مل گئیں اور اب وہ اس کے بارے کافی کچھ جاننے لگی ہیں ۔ لیکن وہ مریض کیا کریں جن کے معالجوں کو بھی ابھی تک اس بیماری کا علم نہیں ہے۔
اگر کبھی آپ کو کسی ایسی وجہ سے، جس کا آپ کو علم نہ ہو، متلی یااسہال یا پیٹ میں درد ہونے لگے، یا سانس لینے میں دشواری ہو، چکر آئیں یا گلے زبان اور آنکھوں میں سوجن کا احساس ہو تو فوراً ڈاکٹر کے پاس جائیں، اور اس شبہے کا اظہار کریں کہ کہیں یہ الفا۔ گال سنڈروم تو نہیں ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر کا دھیان اس طرف نہ گیا ہو۔
(اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)