پاکستان میں وزیرِاعظم کی برطرفی کا معاملہ ہو یا چیف جسٹس کے بیٹے پر رشوت لینے کے الزامات، اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہو یا بھوجا ائر کا فضائی حادثہ، پاکستان میں ہر دن میڈیا کے لئے مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ ہر واقعے پر فوری خبریں اورتجزیے آتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بریکنگ نیوز اورچینل کی ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں بعض اوقات اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا کہ آیا خبر درست اور تجزیہ غیر جانبدارانہ اور متوازن ہے۔
’’میڈیا کے بارے میں لوگوں کو جو شکایات ہیں وہ دوسرے اداروں سے بھی ہیں۔ وہ باتیں جو کسی زمانے میں غیراخلاقی سمجھی جاتی تھیں وہ آج کل معاشرے میں عام ہیں۔ جب پورے معاشرہ انحطاط کا شکار ہو تو میڈیا کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟‘‘ یہ بات سینیر صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمٰن نے وی او اے سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کہی۔
پچھلےدو ہفتوں میں یکے بعد دیگرے کئی اہم خبریں اور نئے انکشافات سامنے آئے۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس سے تمام لوگوں کی توجہ خود میڈیا اور اس میں کام کرنے والے افراد پر مبذول ہوگئی۔ یوٹیوب پر ملک ریاض حسین کے دنیا نیوز کو دیے گئےانٹرویو کی آف دی ریکارڈ گفتگو پر مبنی فوٹیج نے میڈیا کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کردیے۔ اس انٹرویوکے میزبانوں مہر بخاری اور مبشر لقمان نے ملک ریاض سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے۔ ملک ریاض سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فرزند ارسلان افتحار پر رشوت لینے کے الزمات کے بارے میں کیس کے مرکزی کردار ہیں اور ان کا یہ انٹرویو بہت سے ناظرین نے دیکھا۔ مگر اس انٹرویو کی آف دی ریکارڈ فوٹیج سے ایسا تاثر ابھرا کہ ملک ریاض سے غیر جانبدارانہ سوالات پوچھنے کی بجائے پہلے سے طے شدہ انٹرویو کیا گیا۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات کے اداریوں اور پیشہ ور صحافیوں کی رائے کے مطابق یہ انٹرویو واقعی پہلے سے طے شدہ تھا۔ مہنگائی، کرپشن اور عام سہولیات کی محرومی سےستائے ہوئے عوام کے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچی ہے۔
اگر معاملہ اتنا حساس نہ ہوتا تو شاید الیکٹرانک میڈیا کی غلطیوں سے متعلق ماضی کی کئی واقعات کی طرح یہ بات بھی آئی گئی ہو جاتی۔ مگر اس واقعے نےجہاں اداروں کے درمیان رسہ کشی میں میڈیا سےتعلق رکھنے والے کچھ افراد کے منفی کردار پر روشنی ڈالی ہے وہاں الیکٹرانک میڈیا میں پیشہ ورانہ اقدار کے شدید فقدان کی جانب اشارہ کیا ہے۔ انگریزی اخباز ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمٰن نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ آج جو میڈیا کی حالت ہے اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی پابندیوں سے نکل کر آزادی کی دنیا میں قدم رکھنے والا پیشہ اپنی اقدار بھی پیچھے ہی چھوڑ آیا ہے۔‘‘
پاکستان میں صحافتی تدریس اور صحافت کی آزادی کی جنگ میں ایک اہم شخصیت ڈاکٹر مہدی حسن نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا:’’الیکڑانک میڈیا میں ضابطہءاخلاق کی کمی کا اشارہ پہلی مرتبہ 2005ء کے زلزلے کے بعد ملا جب چینلز نے مرنے والوں کی لاشیں دکھائیں اور رپورٹروں نے متاثرہ لوگوں کے گھروں میں گھس کر نامناسب سوالات کئے۔ایک اور اہم واقعہ لال مسجد آپریشن تھا جس کی بے لگام رپورٹنگ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بہت ہوا ملی۔2010ء میں سیلاب کے دوران بھی بعض ٹی وی نمائندوں نے بہت غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔‘‘
بہت سے ناظرین نے اس قسم کے مناظرکو پسند نہیں کیا اوراخبارات میں خطوط اور ٹوئٹراور فیس بک ایسی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ مگر غیر معیاری رپورٹنگ کی شکایات کے باوجود کوئی ضابطہ اخلاق تشکیل دیا گیا، نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ادارے جو اپنے آپ کو صحافت کی آزادی کیلئے کی جانے والی طویل جدوجہد کاثمر سمجھتے ہیں اس جدوجہد میں شریک جرات مند صحافیوں کی اقدار سے اتنا ہی دور نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق، ’’آج پاکستانی میڈیا میں اقدار کا جو زوال نظر آتا ہے اس کی تین چار وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ پچھلے پچیس تیس سالوں کے دوران ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہو گیا ہے۔ اخبارات کے مالکان خود یا اپنے رشتہ داروں کو ایڈیٹر کی جگہ بٹھا کر ادارتی فیصلے کرتے ہیں۔ یہی روایت ٹی وی چینلز میں بھی چل نکلی ۔ ان چینلز کے فیصلوں میں کمرشل مفاد کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور مالکان اس بات کا فیصلہ کہ کون سی خبر چلانی ہے اور کسے روکنا ہے صحافتی اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ اپنے کاروباری مفاد کے مطابق کرتے ہیں۔
“دوسری وجہ تجربہ کار، پیشہ ور صحافیوں کی کمی ہے۔ اس وقت پاکستان میں نواسی چینلز کام کر رہے ہیں۔ نیوز چینلز کی اس اچانک بھرمارکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طلبہ بھی بغیر کسی تربیت کے پروڈیوسر اور اینکر بن گئے اور خبر کے بارے میں فیصلہ کرنے لگے۔ تیسری بڑی وجہ رپورٹروں کو تنخواہ نہ ملنا ہے۔ بڑے چھوٹے شہروں کے پچانوے فیصد رپورٹر بغیر تنخواہ کے رضاکارانہ طور کام کرتے ہیں اوراخباری نمائندہ ہونے کا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے مقامی سطح پر کرپشن کے ذریعے اپنا خرچ چلاتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو کسی ضابطہءاخلاق کے بارے میں علم ہے، نہ ہی یہ جاننا چاہتے ہیں۔ اس چیز کو ختم ہونا چاہئے۔
“چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ صحافتی ضابطہءاخلاق پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے آئین کا حصہ ہے، مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہےاور نہ ہی اس پر کوئی عمل کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اسے وقت کےساتھ اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ ہم بہت دیر سے کہہ رہے ہیں کہ نیا ضابطہ ءاخلاق بننا چاہئے، اس کے لئے کمیشن بھی بنے مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ کام حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ اسے میڈیا پر پابندی سمجھا جائے گا۔ نیا ضابطہء اخلاق بنانے کا کام میڈیا کے لوگ خود ہی کر سکتے ہیں۔‘‘
تاہم راشد رحمٰن میڈیا کے لوگوں سے کوئی امید نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میڈیا مالکان نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ اب حالات میں ایسی کوئی تبدیلی آئی ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں۔ البتہ عوام ضرور کچھ چینلزاور اینکرز سے ہوشیار ہوگئے ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل اب خود میڈیا تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ مگر اس سے کیا اثر ہو گا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’چینلز کے مالکان یا جرنلسٹ یونینز کچھ کریں نہ کریں مگر جن افراد کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، عوام ہمیشہ ایسے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔اس پیشے میں ساکھ کی بہت اہمیت ہے اور اس کو بحال کرنے کیلئے میڈیا مالکان ایسے افراد سے پیچھا چھڑانے میں ہی عافیت سمجھیں گے۔لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ مارکیٹ کے اصول کے مطابق میڈیا چینلز کےناظرین ہی اس بات کو یقینی بنا دیں گے کہ ایسے افراد منظرنامے سے آہستہ آہستہ غائب ہو جائیں۔‘‘
اب جبکہ صحافتی اقدار پر بحث شروع ہوئی ہےاور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے،تو صحافتی تنطیموں اور اداروں کو چاہئے کہ سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کریں اور ضابطہء اخلاق اور احتساب کا نظام قائم کریں تاکہ میڈیا پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔