بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کو سرینگر کی ایک عارضی جیل سے اُن کے گھر منتقل کردیا گیا۔ تاہم گزشتہ آٹھ ماہ سے نظر بند محبوبہ مفتی کو رہا نہیں کیا گیا۔
محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی والدہ کی طرف سے کی گئی ایک ٹوئٹ میں ذرائع ابلاغ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "یہ رہائی نہیں ہے بلکہ میرے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔"
ایک اور ٹوئٹ میں اُنہوں نے کہا کہ میڈیا کو گھنٹوں تک انتظار کرنے کے باوجود محبوبہ مفتی سے ملنے نہیں دیا گیا۔
ساٹھ سالہ محبوبہ مفتی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے اُن سیکڑوں سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں نئی دہلی کی طرف سے پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے بعد نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پانچ اگست 2019 کو بھارت کی حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت حیثیت ختم کر دی تھی۔
ان سیاست دانوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو تین ماہ سے دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
البتہ اسی قانون کے تحت نظر بند دو سابق وزرائے اعلٰی فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو حال ہی میں رہا کر دیا گیا تھا۔
مذکورہ قانون کے تحت بھارتی پولیس نے لگ بھگ چھ ہزار سیاسی، غیر سیاسی تنظیموں، تاجروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراست میں لیا تھا۔
عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کی گھر منتقلی پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ "محبوبہ مفتی کو رہا کیا جانا چاہیے۔ انہیں گھر منتقل کرنے کے باوجود قید میں رکھنا راہِ فرار اختیار کرنا ہے۔"
اس دوران بھارتی حکومت نے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظرجیلوں میں رش کم کرنے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے کے دوراں مزید تین درجن کے قریب قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
عہدے داروں نے بتایا ہے کہ کووڈ-19 کی وجہ سے جیلوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے مزید قیدیوں کی رہائی زیرِ غور ہے۔