برطانیہ علیحدگی کی درخواست دے، پھر بات ہوگی: مرخیل

فائل

جرمن چانسلر مرخیل کا کہنا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ برطانوی قیادت کو صورتِ حال کے تجزیے کے لیے کچھ وقت درکار ہے لیکن ان کے بقول یورپی یونین کو مستقل غیر یقینی کا شکار نہیں رکھا جاسکتا۔

جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل نے واضح کیا ہے کہ جب تک برطانیہ کی حکومت یورپی یونین سے علیحدگی کی باقاعدہ درخواست دائر نہیں کرتی، اس کے ساتھ اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی۔

پیر کو برلن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے واضح کیا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کو تیز یا موخر کرنے سے متعلق برطانیہ پر دباؤ ڈالنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ برطانیہ کی جانب سے یونین سے علیحدگی کی درخواست ملنے کے بعد وہ اس عمل کی تفصیلات طے کرنے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

برطانوی عوام کی اکثریت نے گزشتہ ہفتے ہونے والے ریفرنڈم میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد دنیا بھر کی معاشی منڈیوں اور یورپ کی سیاسی ایوانوں میں خاصی غیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں چلنے والی مہم کے سرکردہ رہنما میتھیو ایلیٹ نے ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد کہا تھا کہ برطانیہ کو علیحدگی کی باقاعدہ درخواست دائر کرنے سے قبل ہی اس بارے میں یورپی یونین کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات شروع کردینے چاہئیں کہ مستقبل میں اس کے اور لندن کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔

لیکن پیر کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران آنگیلا مرخیل نے اس امکان کو یکسر مسترد کردیا۔ مس مرخیل یورپ کی طاقت ور ترین رہنما ہونے کی حیثیت سے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔

اپنی پریس کانفرنس کے دوران آنگیلا مرخیل کا کہنا تھا کہ جب تک برطانیہ یورپی یونین کے قوانین کی شق 50 کے تحت یونین سے علیحدگی کی درخواست جمع نہیں کرادیتا، اس کے ساتھ اس موضوع پر کوئی غیر رسمی بات چیت نہیں ہوگی۔

ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اکتوبر میں وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کااعلان کیا ہے۔ کیمرون – جو برطانیہ کے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی تھے – نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے باضابطہ عمل کا آغاز اگلی حکومت کرے جو اکتوبر میں ان کے استعفے کے بعد اقتدار سنبھالے گی۔

برطانوی وزیرِاعظم کے اس بیان سے متعلق سوال پر جرمن چانسلر مرخیل کا کہنا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ برطانوی قیادت کو صورتِ حال کے تجزیے کے لیے کچھ وقت درکار ہے لیکن ان کے بقول یورپی یونین کو مستقل غیر یقینی کا شکار نہیں رکھا جاسکتا۔

مس مرخیل نے کہا کہ وہ منگل کو برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے موقع پر برطانوی وزیرِاعظم سے اس موضوع پر بات چیت کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ جب تک برطانیہ علیحدگی کی درخواست دائر نہیں کرتا اس وقت تک وہ یورپی یونین کا حصہ ہے اور اس کی جانب سے درخواست موصول ہونے کے بعد ہی طویل مذاکراتی عمل شروع کیا جائے گا۔

گوکہ یورپی یونین کے قوانین میں رکن ممالک کی تنظیم سے علیحدگی کا مکمل ضابطہ اور طریقہ کار موجودہے لیکن 28 رکنی یونین کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی رکن ملک اس سے علیحدگی اختیار کرے گا۔

اتوار کو جرمن چانسلر اور فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کی تھی جس کے بعد دونوں رہنماؤں نے آئندہ کی حکمتِ عملی اتفاقِ رائے سے طے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین کے چھ بانی ارکان – فرانس، جرمنی، اٹلی، بیلجئم، دی نیدرلینڈز اور لگسمبرگ – کے وزرائے خارجہ نے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد برطانیہ پر زور دیا تھا کہ وہ یونین سے علیحدگی کے عمل کو جلد شروع کرے تاکہ غیر یقینی کی صورتِ حال کا خاتمہ کیا جاسکے۔