اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں، آسٹریا کے سائنسدانوں نے انسانوں میں پلاسٹک کے خُردبینی سائز کے ذرات کی موجودگی کا پتا چلایا ہے۔ پلاسٹک کا استعمال ہماری روز مرہ زندگی میں بہت عام ہو گیا ہے۔ لیکن اب یہ انسانی جسم میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔
آسٹریا کے دو بڑے محققین، میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹر فلِپ شوابل، اور آسٹریا کے ادارہ برائے ماحولیات کی ڈاکٹر بیٹِنی لِیب مین نے فِن لینڈ، اٹلی، جاپان، نیدر لینڈ، پولینڈ، روس، برطانیہ اور آسٹریا کے باشندوں پر پلاسٹک کے ذرات کے حوالے سے تحقیق کی۔
مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات ہیں، جن کا سائز پانچ ملی میٹر سے بھی کم ہوتا ہے۔ ان ذرات کو کاسمیٹک کی اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، اور جنوبی کوریا سمیت کچھ ملکوں نے پلاسٹک کے ان ذرات کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ لیکن پلاسٹک کے خردبینی ذرات اس وقت بنتے ہیں جب پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی وقت کے ساتھ شکست و ریخت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، دنیا بھر کے سمندروں میں ہر سال 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک شامل ہو جا تا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اندازوں کے مطابق، سن 2014 میں امریکیوں نے 330 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک، کوڑے کے طور پر پھینکا تھا۔
تاہم چھوٹے پیمانے پر کی گئی اس تحقیق میں، یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاہے پلاسٹک ہمارے لئے اچھا ہے یا نہیں، لیکن اب یہ ہمارے جسم کے اندر داخل ہو چکا ہے۔
تحقیق میں شامل شرکا سے کہا گیا تھا کہ وہ تحقیق میں شامل ہونے سے پہلے، گزشتہ سات دن کی اپنی خوراک سے متعلق معلومات کا تحریری ریکارڈ رکھیں۔
اور پھر تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ ہر شخص کے فضلے میں پلاسٹک کے خردبینی ذرات پائے گئے، اور ان میں پلاسٹک کی نو مختلف اقسام شامل تھیں۔
مگر یہ پلاسٹک کہاں سے آیا تھا۔ تحقیق سے پتا چلا کہ انسانوں میں پایا جانے والا پلاسٹک، دراصل وہ پلاسٹک ہے جو پلاسٹک کے ڈبوں اور پلاسٹک میں لپٹے کھانوں اور پلاسٹک کی بوتلوں کا پانی پینے سے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
مگر کیا یہ پلاسٹک ہمیں بیمار کر رہا ہے؟ ڈاکٹر شوابل اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الحال اس بارے کوئی حتمی تحقیق نہیں کی گئی جس سے یہ پتا چلے کہ یہ انسانوں کے لئے خطرناک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جانوروں پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کے خردبینی ذرات سے آنتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور نظام ہضم متاثر ہو سکتا ہے۔
شوابل کہتے ہیں کہ اس میں ہم سب کے لئے اور خاص کر ان لوگوں کے لئے جو معدے اور آنتوں کی بیماری کا شکار ہیں، تشویش کی بات ہے۔ شوابل کہتے ہیں کہ جانوروں میں پلاسٹک کے سب سے زیادہ خردبینی ذرات آنت میں پائے گئے۔ ان میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ یہ ذرات ان کے جسم کی انتہائی باریک نالیوں میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
شوابل کہتے ہیں کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ پلاسٹک اب ہم سب کے جسموں میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر جلد ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے، تو اس کی مقدار جسم میں بڑھتی چلی جائے گی۔