اسرائیل کی حکومت نے سرحدوں کے نزدیک ریزروفوجی دستوں کو تعینات کرنے اور فوج کو میزائل دفاعی نظام مضبوط بنانے کا حکم دیا ہے۔
واشنگٹن —
شام پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ممکنہ حملے کے پیشِ نظر خطے کے ممالک نے حفاظتی اقدامات کرنا شروع کردیے ہیں۔
شام کے جنوب میں واقع اسرائیل کی حکومت نے سرحدوں کے نزدیک ریزروفوجی دستوں کو تعینات کرنے اور فوج کو میزائل دفاعی نظام مضبوط بنانے کا حکم دیا ہے۔
شام اور اسرائیل پرانے دشمن ہیں اور اسرائیلی کو خدشہ ہے کہ شام پر مغربی ممالک کے حملے کی صورت میں دمشق حکومت اسے جوابی حملے کا نشانہ بناسکتی ہے۔
اسرائیلی حکام کو شام پر حملے کی صورت میں صدر اسد کی اتحادی لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کی جانب سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ باری کا بھی اندیشہ ہے جس کے پیشِ نظر اسرائیلی حکومت نے میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنانے کا حکم دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج نے اپنے تمام میزائل دفاعی نظاموں کو متحرک کردیا ہے جن میں کم فاصلے سے مار کرنے والے راکٹوں کا دفاعی نظام 'آئرن ڈوم'، درمیانے فاصلے کے میزائلوں سے بچاؤ کے نظام 'پیٹریاٹ اور طویل فاصلے والے میزائلوں کے دفاعی نظام 'ایرو 2' شامل ہیں۔
ریڈیو رپورٹ کے مطابق حکومت نے کچھ ریزرو فوجی دستوں کو بھی طلب کرلیا ہے جنہیں شام کے ساتھ شمالی سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ان دستوں کا بنیادی کام شہری دفاع کو مضبوط بنانا اور دفاعی میزائل نظاموں کو متحرک رکھنا ہوگا۔
اس سے قبل منگل کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی سے دور رہا ہے لیکن اگر اب اس پر حملے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کا سختی سے جواب دے گا۔
شامی حکومت کی جانب سے ممکنہ کیمیاوی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر اسرائیلی حکومت اپنے شہریوں میں 'گیس ماسک' بھی تقسیم کر رہی ہے اور بدھ کو بھی ماسک تقسیم کرنے والے مراکز پر لوگوں کی طویل قطاریں بندھی رہیں۔
اسرائیلی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 60 فی صد آبادی پہلے ہی 'گیس ماسک' حاصل کرچکی ہے جب کہ باقی ماندہ افراد کی طلب پوری کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ادھر شام کے دوسرے پڑوسی ملک عراق نے بھی مغربی ممالک کے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیشِ نظر اپنی سکیورٹی فورسز کو "انتہائی چوکنّا" رہنے کا حکم دیا ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی پر نشر کیے جانے والے وزیرِاعظم نوری المالکی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر دارالحکومت بغداد اور تمام صوبوں سمیت پورے ملک کے تمام سیاسی اور سکیورٹی اداروں کو انتہائی چوکنا کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شام پر ممکنہ حملے کی صورتِ میں جنم لینے والی خطرناک صورتِ حال سے بچنے کےلیے عراقی حکام تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔
بغداد حکومت کے مطابق عراق نے شام کے ساتھ اپنی 680 کلومیٹر طویل صحرائی سرحد پر سکیورٹی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔
عراقی حکومت کا موقف ہے کہ شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث عراق میں بھی 'القاعدہ' سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے باوجود عراق کی حکومت نے شام کے خلاف ممکنہ بین الاقوامی فوجی کاروائی کی مخالفت کی ہے ۔
دوسری جانب شامی حکومت کے واحد علاقائی اتحادی ایران نے خبردار کیا ہے کہ شام میں امریکی فوجی مداخلت "خطے کے لیے انتہائی تباہ کن" ثابت ہوگی۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِسنا' کے مطابق سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ خطے سے باہر کی غیر ملکی طاقتوں کی کسی ملک میں مداخلت کا نتیجہ "آگ بھڑکانے اور لوگوں میں ان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے" کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔
خامنہ ای کے بقول، "یہ عمل باردو خانے کو چنگاری دکھانے جیسا ہوگا جس کی سمت اور نتائج کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا"۔
انہوں نے خبردار کیا کہ شام پر حملے کے امریکیوں کے لیے بھی برے نتائج برآمد ہوں گے اور اسے عراق اور افغانستان کی طرح شام میں مداخلت بھی مہنگی پڑے گی۔
ایران کو اندیشہ ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں وہ اپنے اہم ترین اتحادی ملک سے محروم ہوجائے گا جب کہ شام میں سنّی العقیدہ یا مغربی ممالک کی اتحادی حکومت بننے کی صورت میں ایران کا کا لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم 'حزب اللہ' سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوجائے گا۔
مغربی ممالک اور اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران شام کے راستے 'حزب اللہ' کو ہتھیار فراہم کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اسرائیل کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔
شام کے جنوب میں واقع اسرائیل کی حکومت نے سرحدوں کے نزدیک ریزروفوجی دستوں کو تعینات کرنے اور فوج کو میزائل دفاعی نظام مضبوط بنانے کا حکم دیا ہے۔
شام اور اسرائیل پرانے دشمن ہیں اور اسرائیلی کو خدشہ ہے کہ شام پر مغربی ممالک کے حملے کی صورت میں دمشق حکومت اسے جوابی حملے کا نشانہ بناسکتی ہے۔
اسرائیلی حکام کو شام پر حملے کی صورت میں صدر اسد کی اتحادی لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کی جانب سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ باری کا بھی اندیشہ ہے جس کے پیشِ نظر اسرائیلی حکومت نے میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنانے کا حکم دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج نے اپنے تمام میزائل دفاعی نظاموں کو متحرک کردیا ہے جن میں کم فاصلے سے مار کرنے والے راکٹوں کا دفاعی نظام 'آئرن ڈوم'، درمیانے فاصلے کے میزائلوں سے بچاؤ کے نظام 'پیٹریاٹ اور طویل فاصلے والے میزائلوں کے دفاعی نظام 'ایرو 2' شامل ہیں۔
ریڈیو رپورٹ کے مطابق حکومت نے کچھ ریزرو فوجی دستوں کو بھی طلب کرلیا ہے جنہیں شام کے ساتھ شمالی سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ان دستوں کا بنیادی کام شہری دفاع کو مضبوط بنانا اور دفاعی میزائل نظاموں کو متحرک رکھنا ہوگا۔
اس سے قبل منگل کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی سے دور رہا ہے لیکن اگر اب اس پر حملے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کا سختی سے جواب دے گا۔
شامی حکومت کی جانب سے ممکنہ کیمیاوی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر اسرائیلی حکومت اپنے شہریوں میں 'گیس ماسک' بھی تقسیم کر رہی ہے اور بدھ کو بھی ماسک تقسیم کرنے والے مراکز پر لوگوں کی طویل قطاریں بندھی رہیں۔
اسرائیلی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 60 فی صد آبادی پہلے ہی 'گیس ماسک' حاصل کرچکی ہے جب کہ باقی ماندہ افراد کی طلب پوری کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ادھر شام کے دوسرے پڑوسی ملک عراق نے بھی مغربی ممالک کے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیشِ نظر اپنی سکیورٹی فورسز کو "انتہائی چوکنّا" رہنے کا حکم دیا ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی پر نشر کیے جانے والے وزیرِاعظم نوری المالکی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر دارالحکومت بغداد اور تمام صوبوں سمیت پورے ملک کے تمام سیاسی اور سکیورٹی اداروں کو انتہائی چوکنا کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شام پر ممکنہ حملے کی صورتِ میں جنم لینے والی خطرناک صورتِ حال سے بچنے کےلیے عراقی حکام تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔
بغداد حکومت کے مطابق عراق نے شام کے ساتھ اپنی 680 کلومیٹر طویل صحرائی سرحد پر سکیورٹی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔
عراقی حکومت کا موقف ہے کہ شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث عراق میں بھی 'القاعدہ' سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے باوجود عراق کی حکومت نے شام کے خلاف ممکنہ بین الاقوامی فوجی کاروائی کی مخالفت کی ہے ۔
دوسری جانب شامی حکومت کے واحد علاقائی اتحادی ایران نے خبردار کیا ہے کہ شام میں امریکی فوجی مداخلت "خطے کے لیے انتہائی تباہ کن" ثابت ہوگی۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اِسنا' کے مطابق سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ خطے سے باہر کی غیر ملکی طاقتوں کی کسی ملک میں مداخلت کا نتیجہ "آگ بھڑکانے اور لوگوں میں ان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے" کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔
خامنہ ای کے بقول، "یہ عمل باردو خانے کو چنگاری دکھانے جیسا ہوگا جس کی سمت اور نتائج کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا"۔
انہوں نے خبردار کیا کہ شام پر حملے کے امریکیوں کے لیے بھی برے نتائج برآمد ہوں گے اور اسے عراق اور افغانستان کی طرح شام میں مداخلت بھی مہنگی پڑے گی۔
ایران کو اندیشہ ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں وہ اپنے اہم ترین اتحادی ملک سے محروم ہوجائے گا جب کہ شام میں سنّی العقیدہ یا مغربی ممالک کی اتحادی حکومت بننے کی صورت میں ایران کا کا لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم 'حزب اللہ' سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوجائے گا۔
مغربی ممالک اور اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران شام کے راستے 'حزب اللہ' کو ہتھیار فراہم کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اسرائیل کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔