بنوں: سرکاری عمارت سے دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے کی کوشش، ٹی ٹی پی سے رابطہ

بنوں میں سرکاری عمارت میں یرغمال بنائے گئے لوگوں میں عام افراد شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کی عمارت میں یرغمال بنائے گئے اہلکاروں کو 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں افغانستان میں موجود کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے پیر کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سی ٹی ڈی کے تھانے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عام افراد بھی موجود ہیں، معاملے کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ تھانے پر قبضہ ختم کرا کر یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرایا جائے۔ ان کے بقول اس سلسلے میں سرحد پار افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں سے رابطے قائم ہوئے ہیں۔

اتوار کو سی ٹی ڈی کی عمارت میں زیرِ حراست مبینہ عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو یرغمال بنا کر عمارت پر قبضہ کر لیا تھا۔عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ایک کیپٹن سمیت تین سیکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔

کمپاؤنڈ پر قابض دہشت گرد افغانستان تک باحفاظت پرامن فضائی راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ فوج کے اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کمانڈوز اور کوئک رسپانس فورس (کیو آر ایف) کے اہلکار آپریشن میں مصروف ہیں جب کہ بنوں کینٹ کی فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔

SEE ALSO: عسکریت پسندوں کا لکی مروت میں تھانے پر حملہ، چار پولیس اہل کار ہلاک

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بنوں چھاؤنی کا علاقہ مکمل طور پر بند ہے اور یہاں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے جب کہ یونیورسٹی میں پیر کو ہونے والے پرچے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

بنوں کے ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ مقامی سیکیورٹی افسران کے مطابق سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ کے اندر زیرِ حراست مبینہ دہشت گردوں کی تعداد لگ بھگ 20 ہےجب کہ سیکیورٹی حکام آٹھ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

اتوار کو جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عسکریت پسندوں نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کر کے کمپاؤنڈ کے ایک حصے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کئی سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے جب کہ کمپاؤنڈ میں قید کئی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو چھڑا لیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے اتوار کو جاری بیان میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن بنوں پر کسی نے حملہ نہیں کیا، پولیس اسٹیشن میں کچھ ملزم دہشت گردی کے شبہے میں زیرِحراست تھے، ان ملزمان نے اسٹیشن میں موجود سیکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کی بھی کو شش کی۔

'قیدیوں کی محفوظ منتقلی کے لیے حکام سے بات ہوئی ہے'

بیرسٹر سیف نے حالات کے مکمل کنٹرول میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

بنوں کے صحافی محمد وسیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مبینہ عسکریت پسند سابق وزیرِ اعلیٰ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی اور پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی وزیر ملک شاہ محمد سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بنوں سی ٹی ڈی واقعےسے متعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ قیدیوں نے کئی فوجی افسران اور جیل عملے کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کی شمالی یاجنوبی وزیرستان منتقلی سے متعلق حکومتی ذمے داران سے بات ہوئی ہے لیکن اب تک کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔

میران شاہ میں خود کش دھماکہ

شمالی وزیرستان میں میں خودکش دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایک فوجی اہلکار بھی شامل ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں دھماکہ ہوا ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دھماکے میں تین افراد نشانہ بنے ہیں جن میں دو عام شہری ہیں جب کہ ایک فوجی نائیک عابد ہلاک ہوا ہے۔
بیان کے مطابق ہلاک ہونے والا فوجی مانسہرہ کا رہائشی تھا۔