لیبیا کے دار الحکومت طرابلس میں حریف ملیشیاؤں کے درمیان جھڑپوں کے دوران ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھ کرکم از کم 45 ہو گئی ہے۔ لیبیا کے ایمرجنسی میڈیسن اینڈ سپورٹ سینٹر کے ترجمان ملک مرسیٹ نے کہا ہے بدھ کے روز مزید 146افراد زخمی ہوئے جب کہ منگل کی رپوٹ کے مطابق 106 افراد زخمی ہوئے تھے ۔
444 بریگیڈ اور اسپیشل ڈیٹیرینس فورس کے درمیان پیر کو شروع ہونے والی 24 گھنٹوں کی یہ جھڑپیں اس سال طرابلس کو ہلا دینے والے تشدد کا سب سے بڑا سلسلہ دکھائی دیتی ہیں ۔ اس تشدد نے 2011کی بغاوت کے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرنے کے بعد سے، جنگ سے تباہ حال ملک لیبیا کے عدم استحکام کو نمایاں کیا ہے ۔
فوجی 24 گھنٹے کی لڑائی کے بعد امن بحال کرنے کے لئے پورے طرابلس میں پھیل گئے ۔
یہ جھڑپیں پیر کی رات شروع ہوئیں اور منگل کی شام تک جاری رہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق کشیدگیوں میں اضافہ اس کے بعد ہوا ، جب 444 بریگیڈ کے ایک سینئر کمانڈر محمود حمزہ کو مبینہ طور پر حریف گروپ نے طرابلس کے ایک ائیر پورٹ پر گرفتار کر لیا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ انہیں بعد میں تشدد ختم کرنے کے ایک معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مرنے والوں میں ملیشیا کے کتنے لوگ اورکتنےعام شہری تھے۔
لیبیا کی سیکیورٹی فورسز نے بدھ کو سڑکوں پر گشت کی اورپورے طرابلس میں پھیل گئیں ۔ ملک کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز جنوبی مضافاتی علاقے فرناج اور الشوک روڈ سمیت شدید ترین لڑائی کے علاقوں میں تعینات کی گئیں۔
اس تشدد نے 2011 کی شورش کے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرنے کے بعد سے ،جس میں معمر قذافی کا تختہ الٹا گیا تھااور بعد میں انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا، جنگ سے تباہ حال لیبیا کے عدم استحکام کو نمایاں کیا ہے ۔
افراتفری کے دوران ، ملیشیا ؤں کی دولت اور طاقت میں اضافہ ہوا، خاص طور پر طرابلس اور ملک کے مغرب میں۔
2014 سے لیبیا مشرق اور مغرب میں دو حریف ایڈ منسٹریشنز کے درمیان منقسم ہے ۔ ان میں سےہر ایک کو بھاری مسلح ملیشیاؤں اور مختلف غیر ملکی حکومتو ں کے گروپس کی حمایت حاصل ہے ۔ منگل کو لیبیا کے دونوں قانون ساز ایوانوں نے الگ الگ بیانات میں خونریزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
بدھ کو جاری ایک بیان میں ، یورپی یونین نے تمام فریقوں پر مسلح دشمنیوں سےباز رہنے، کشیدگی میں کمی لانے اور امن کی بحالی کے لئے گفت و شنید جاری رکھنے پر زور دیا ۔
طرابلس میں حالیہ برسوں میں تشدد کے ایسے ہی واقعات دیکھے گئے ہیں ، اگرچہ ان میں سے بیشتر چند گھنٹے ہی رہے ۔ گزشتہ اگست میں دار الحکومت میں سر گرم دو دوسری ملیشیاؤں کے درمیان جھڑ پوں میں کم از کم 23 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
لیبیا کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایسو سی ایٹ فیلو اور لیبیا کے امور پر ایک ماہر ، جلیل ہرچاؤئی نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی سیکٹر کی اصلاحات کے فروغ اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنے کی فوری کوششوں کے بارےمیں بہت سے وعدے سنے ہیں لیکن ابھی تک ان شعبوں میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔
444 بریگیڈ اور اسپیشل ڈیٹیرینٹ فورس طرابلس میں سر گرم دو سب سے بڑی ملیشیائیں ہیں۔ دونوں کو اس سے قبل وہاں کی انتظامیہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سےلیا گیا ہے۔)