’کیپلر 32‘ ہمارے نظام ِ شمسی میں ایسی جگہ پر پایا جاتا ہے جہاں ’کیپلر32 ‘ کے سیاروں پر تحقیق کرنا سائنسدانوں کے لیے کسی سنہری موقعے سے کم نہیں۔
واشنگٹن —
ہماری تیزی سے بدلتی اس دنیا میں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا ہو جب ہمارے نظام ِ شمسی میں کسی نئے سیارے کی دریافت نہ کی جاتی ہو۔ لیکن، ’کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ کی جانب سے ایک حالیہ جائزے کے مطابق مستقبل قریب میں نظامِ فلکی میں ایسی بہت زیادہ دریافتوں کا امکان ہے۔
کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے یہ نتیجہ ’کیپلر 32‘ نامی ستارے کے مدار کے گرد گھومتے سیاروں کی جانچ سے لگایا ہے۔ یہ ستارہ پانچ سیاروں پر مشتمل ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کہکشاں میں ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سائنسی زبان میں ’کیپلر 32‘ کو ’M dwarf‘ کہا جاتا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کہکشاں میں موجود ہر چار میں سے تین ستارے ’M dwarf‘ ہوتے ہیں۔ انہیں ’Red dwarf‘ بھی کہا جاتا ہے۔
جان جانسن کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ میں فلک شناسی کے پروفیسر ہیں۔ اُن کے بقول، ’ہماری کہکشاں میں کم از کم سو ارب سیارے موجود ہیں۔‘
اُنہوں نے حال ہی میں اسی حوالے سے ایک تحقیق بھی کی ہے جسے ستاروں سے متعلق ایک جید جریدے ’ایسٹرو فزیکل جرنل‘ نے بہت عمدہ قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انکی طرف سے دیا گیا سو ارب سیاروں کا عدد ایک محتاط عدد ہے، کیونکہ اس میں ان سیاروں کو شامل نہیں کیا گیا جو M dwarfs یا دیگر مختلف طرح کے ستاروں کے مدار میں قدرے فاصلے پر گردش کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق ’کیپلر 32‘ کے پانچ سیارے جس کا سراغ ’کیپلر سپیس ٹیلی سکوپ‘ کی مدد سے لگایا گیا تھا، حجم میں ہماری زمین کے برابر ہیں۔ وہ ساخت میں ان سیاروں سے زیادہ مختلف نہیں جو M dwarf ستاروں کے گرد دریافت کیے گئے تھے۔ یہ سب اپنے ستارے کے بہت نزدیک ایک مدار میں گھومتے رہتے ہیں۔
گو کہ یہ سیارے ساخت میں ہماری زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن، ’کیپلر 32‘ کا نظام ہمارے نظام ِ شمسی سے مختلف ہے۔ ستارہ سورج کی نسبت بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس کی روشنی بھی سورج کی روشنی کا محض پانچ فیصد ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ’کیپلر 32‘ نظام ِ شمسی کے ایک ’قابل ِ سکونت حصے‘ میں ہے جہاں ممکن ہے کہ پانی موجود ہو۔ ’کیپلر 32‘ کے نظام میں صرف انتہائی بیرونی سیارہ ہی ایسے حصے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن جان جانسن کہتے ہیں کہ یہ ’نیپچون‘ نامی سیارے سے ملتا جلتا ہے اور ممکن ہے کہ پانی جیسی ان چیزوں کو برداشت نہ کرے جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے ’کیپلر 32‘ ہمارے نظام ِ شمسی میں ایسی جگہ پر پایا جاتا ہے جہاں ’کیپلر32‘ کے سیاروں پر تحقیق کرنا ان کے لیے کسی سنہری موقعے سے کم نہیں۔ سیارے زاویہ ِ مستوی یا دو خطوط ِ مستقیم کے درمیان ایک ایسے زاویے پر ہیں جو ستارے کی طرف سے آنے والی روشنی کو تھوڑی دیر کے لیے روکتے ہیں۔ ستارے کی روشنی کی یہ تبدیلیاں سائنسدانوں کو سیاروں کی ساخت اور مدار کے گرد ان کے گھومنے کی رفتار کا جائزہ لینے میں مدد دے سکتی ہیں۔
نظام ِ فلکی میں ستاروں اور سیاروں کی جانچ اور ان پر تحقیق ایک مشکل امر ہے۔ جان جانسن کا کہنا ہے کہ، ’یہ بالکل ایسا ہے کہ آپ کوئی زبان نہ جانتے ہوں اور آپ کو اس زبان کو سمجھ کر پڑھنا ہو۔ ہمارے لیے سیاروں کی معلومات اسی زمرے میں آتی ہیں۔‘
اُن کے مطابق،’اگلا اہم سوال یہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی سیارہ زندگی کے آثار جیسا کہ پانی وغیرہ کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ نہیں۔‘
کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے یہ نتیجہ ’کیپلر 32‘ نامی ستارے کے مدار کے گرد گھومتے سیاروں کی جانچ سے لگایا ہے۔ یہ ستارہ پانچ سیاروں پر مشتمل ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کہکشاں میں ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سائنسی زبان میں ’کیپلر 32‘ کو ’M dwarf‘ کہا جاتا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کہکشاں میں موجود ہر چار میں سے تین ستارے ’M dwarf‘ ہوتے ہیں۔ انہیں ’Red dwarf‘ بھی کہا جاتا ہے۔
جان جانسن کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ میں فلک شناسی کے پروفیسر ہیں۔ اُن کے بقول، ’ہماری کہکشاں میں کم از کم سو ارب سیارے موجود ہیں۔‘
اُنہوں نے حال ہی میں اسی حوالے سے ایک تحقیق بھی کی ہے جسے ستاروں سے متعلق ایک جید جریدے ’ایسٹرو فزیکل جرنل‘ نے بہت عمدہ قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انکی طرف سے دیا گیا سو ارب سیاروں کا عدد ایک محتاط عدد ہے، کیونکہ اس میں ان سیاروں کو شامل نہیں کیا گیا جو M dwarfs یا دیگر مختلف طرح کے ستاروں کے مدار میں قدرے فاصلے پر گردش کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق ’کیپلر 32‘ کے پانچ سیارے جس کا سراغ ’کیپلر سپیس ٹیلی سکوپ‘ کی مدد سے لگایا گیا تھا، حجم میں ہماری زمین کے برابر ہیں۔ وہ ساخت میں ان سیاروں سے زیادہ مختلف نہیں جو M dwarf ستاروں کے گرد دریافت کیے گئے تھے۔ یہ سب اپنے ستارے کے بہت نزدیک ایک مدار میں گھومتے رہتے ہیں۔
گو کہ یہ سیارے ساخت میں ہماری زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن، ’کیپلر 32‘ کا نظام ہمارے نظام ِ شمسی سے مختلف ہے۔ ستارہ سورج کی نسبت بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس کی روشنی بھی سورج کی روشنی کا محض پانچ فیصد ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ’کیپلر 32‘ نظام ِ شمسی کے ایک ’قابل ِ سکونت حصے‘ میں ہے جہاں ممکن ہے کہ پانی موجود ہو۔ ’کیپلر 32‘ کے نظام میں صرف انتہائی بیرونی سیارہ ہی ایسے حصے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن جان جانسن کہتے ہیں کہ یہ ’نیپچون‘ نامی سیارے سے ملتا جلتا ہے اور ممکن ہے کہ پانی جیسی ان چیزوں کو برداشت نہ کرے جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے ’کیپلر 32‘ ہمارے نظام ِ شمسی میں ایسی جگہ پر پایا جاتا ہے جہاں ’کیپلر32‘ کے سیاروں پر تحقیق کرنا ان کے لیے کسی سنہری موقعے سے کم نہیں۔ سیارے زاویہ ِ مستوی یا دو خطوط ِ مستقیم کے درمیان ایک ایسے زاویے پر ہیں جو ستارے کی طرف سے آنے والی روشنی کو تھوڑی دیر کے لیے روکتے ہیں۔ ستارے کی روشنی کی یہ تبدیلیاں سائنسدانوں کو سیاروں کی ساخت اور مدار کے گرد ان کے گھومنے کی رفتار کا جائزہ لینے میں مدد دے سکتی ہیں۔
نظام ِ فلکی میں ستاروں اور سیاروں کی جانچ اور ان پر تحقیق ایک مشکل امر ہے۔ جان جانسن کا کہنا ہے کہ، ’یہ بالکل ایسا ہے کہ آپ کوئی زبان نہ جانتے ہوں اور آپ کو اس زبان کو سمجھ کر پڑھنا ہو۔ ہمارے لیے سیاروں کی معلومات اسی زمرے میں آتی ہیں۔‘
اُن کے مطابق،’اگلا اہم سوال یہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی سیارہ زندگی کے آثار جیسا کہ پانی وغیرہ کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ نہیں۔‘