جنوری دو ہزار دس میں لاھور کی ایک آرٹ گیلری میں مِنی ایچر آرٹسٹ ناہید فخر کے فن پاروں کی نمائش کو آرٹ کے شائقین نے بے حد پسند کیا۔ آرٹ گیلری کے منتظم کا کہنا تھا کہ اتنی تعداد میں لوگوں کی اس نمائش میں دلچسپی اس اَمر کی گواہی دیتی ہے کہ پاکستان میں اُنیس سو اَسی کے عشرے میں نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کے فن کو عجائب گھروں سے نکال کر آرٹ گیلریوں تک لے جانےکی جس کوشش کا آغاز کیا تھا وہ اب کافی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ "روایت" کے عنوان سے اپنی اس نمائش میں ناہید فخر کی صدیوں پرانے اس فن کو روایتی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش نمایاں دکھائی دی۔ بعد ازاں ناہید فخر نے ایک خصوصی انٹرویو میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مِنی ایچر آرٹ کا آغاز گیارھویں اور بارھویں صدی میں کتابوں میں شامل ہونے والی اُن تصویروں سے ہوا جو باریک بینی سے بنائی جاتی تھیں تاکہ قاری کو کتاب کا متن سمجھنے میں دِقت محسوس نہ ہو۔
اس سلسلے میں ناہید فخر نے طِب کی کتابوں کی مثال دی اور کہا کہ مصنفین اپنا مدعا واضح کرنے کےلیے طِب کی کتابوں میں جو تصویریں بنوا کر شامل کیا کرتے تھے یہی تصویریں بعد میں مِنی ایچرآرٹ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔
ایک سوال کے جواب میں ناہید نے کہا کہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا دور مِنی ایچر آرٹ کی ترقی کا دور کہلاتا ہے کیونکہ اُس دور میں اس شعبے میں اُن کے بقول بے مثال کام ہوا جس کی نشانیاں آج بھی عجائب گھروں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
لاھور کے عجائب گھر میں بھی مغل دور کی درجنوں مِنی ایچر پیٹنگز موجود ہیں اور بیرونی ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں سے مِنی ایچر آرٹ کے چاہنے والے ان پیٹنگز کو دیکھنے کی غرض سے بڑی تعداد میں لاھور کے عجائب گھر آتے ہیں۔
ناہید فخر نے کہا کہ مغلوں کے بعد انگریزوں کے دور میں مِنی ایچر آرٹ میں کوئی قابل ذکر ترقی دیکھنے میں نہیں آئی اور پاکستان بننے کے بعد بھی اس شعبہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اُنیس سو بیاسی میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا جبکہ اس فن کے اساتذہ بھی بہت کم تعداد میں موجود تھے۔
اُنہوں نے بتایا کہ معروف مِنی ایچر آرٹسٹ حاجی شجاع جیسے ماہرین نے آغاز میں اس فن کی تعلیم دینے میں بے مثال کردار ادا کیا مگر جس فنکار نے مِنی ایچر آرٹ کو آرٹ گیلریوں تک پہنچایا اُس کا نام بشیر احمد ہے۔
واضح رہے کہ معروف مِنی ایچر آرٹسٹ بشیر احمد گزشتہ تیس برسوں سے نیشنل کالج آف آرٹس میں مِنی ایچر آرٹ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ خود مِنی ایچر آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنے کئی طلباء وطالبات کو اس فن کی مہارت سکھائی ہے۔ ناہید فخر بھی بشیر احمد سے تعلیم حاصل کرچکی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ عجائب گھروں سے اس فن کو آرٹ گیلریوں تک پہنچانا اُن کی نظر میں فائن آرٹس کی بےمثال خدمت کے مترادف ہے جس کے لیے وہ بشیر احمد کا کردار مرکزی نوعیت کا سمجھتی ہیں۔
ناہید فخر نے مِنی ایچر آرٹ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ فن عام پیٹنگز سے بہت مختلف ہے۔ اس میں گلہری کی دُم سے بُرش بنایا جاتا ہے اور چار کاغذوں کو خاص قسم کی لئی سے جوڑ کر وہ مخصوص کاغذ تیار کیا جاتا ہے جو مِنی ایچر پیٹنگز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کاغذ کو"وصلی" کہتے ہیں کیونکہ یہ چار کاغذوں کے وصل سے وجود میں آتا ہے۔ ناہید کا کہنا تھا کہ پہلے تو رنگ بھی فنکار خود تیار کیا کرتے تھے مگر اب صرف سفید رنگ آرٹسٹ خود تیار کرتے ہیں اور دیگر رنگ وہ استعمال کرلیتے ہیں جو بازار میں ملتے ہیں۔
اپنے فن پاروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ناہید فخر نے کہا کہ اُنہوں نے اپنی کچھ پیٹنگز میں ماربلنگ کا استعمال کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس تکنیک کو مقامی طور پر "ابری" کہا جاتا ہے اور اِس میں پانی پر رنگ ٹھہرا کر تصویر بنائی جاتی ہے جس کو بعد میں کاغذ پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ ناہید کا کہنا تھا کہ ابری کی تکینک کافی پرانی ہے اور کئی دوسرے ملکوں میں بھی فنکار اس تکینک کو استعمال کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا ابری کو وہ مِنی ایچر آرٹ ہی کا حصہ باور کرتی ہیں۔
گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے ایک فن کا آغاز ہوا جو بعد ازاں مِنی ایچر آرٹ کہلایا