بھارت میں 18 دسمبر اقلیتوں کےحقوق کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر مختلف نجی اداروں کی جانب سے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ یہ جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ آئین نے اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا جو حق دیا ہے کیا وہ انھیں مل رہا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ آئین نے اقلیتوں کو جو مذہبی حقوق دیے ہیں وہ انھیں مکمل طور پر حاصل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت میں اقلیتیں اپنے حقوق سے محروم کی جا رہی ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں اقلیتی آبادی 19 اعشاریہ 30 فیصد ہے۔ جب کہ سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کی آبادی 14 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔
بھارت میں مسلمان، سکھ، عیسائی، بودھ، پارسی اورجین برادریوں کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔
یہاں 1992 میں قومی اقلیتی کمشن بنایا گیا اور 2006 میں مرکزی حکومت میں اقلیتی امور کی وزارت تشکیل دی گئی۔ اس وقت اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی ہیں۔
بھارت کے آئین میں دفعہ 25 سے 28 تک تمام شہریوں کو مذہبی آزادی تفویض کی گئی ہے۔ دفعہ 25 تمام شہریوں کو اپنی پسند کے مذہب پر چلنے یا مذہب بدلنے کی گارنٹی دیتی ہے۔
دستور میں بھارت کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی اقلیتوں کو وہ مذہبی حقوق حاصل ہیں جو آئین نے انھیں دیے ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے ساوتھ ایشیا فورم فار ہیومن رائٹس کے سیکرٹری جنرل تپن بوس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئین نے تو حقوق دیے ہیں لیکن حکومتیں آئین کے مطابق عمل نہیں کرتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں آزادی کے بعد سے ہی ہندوتوا کی مبینہ فرقہ پرست سیاست رہی ہے۔ لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، اقلیتوں پر مظالم بڑھ گئے ہیں۔
ان کے بقول مسلمانوں اور عیسائیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے خواہ وہ بیف کے نام پر ہو یا اب 'لو جہاد' کے نام پر۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا کہ مسلمانو ں کے گھروں میں گھس کر یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ کہیں وہ بیف تو نہیں کھا رہے ہیں۔
ان کے بقول آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت اور مذہب سب خطرے میں ہیں۔
انھوں نے سی اے اے اور اترپردیش کے 'لو جہاد' مخالف قانون کو آئین کے منافی قرار دیا اور کہا کہ آج اپنی مرضی سے مذہب بدلنے اور شادی کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔
دہلی اقلیتی کمشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ موجودہ حکومت اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو ان کے آئینی و مذہبی حقوق دینا نہیں چاہتی۔
انھوں نے اترپردیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاقے گورکھپور میں مسلمانوں کے ساتھ زبردست ناانصافی کی جا رہی ہے۔ یوگی نے ”ہندو یووا واہنی“ نام کی ایک غیر قانونی ملیشیا قائم کر رکھی ہے جو مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بناتی ہے۔
ظفر الاسلام خان نے مزید کہا کہ انھوں نے ان علاقوں کا دورہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ کس طرح مسلم عورتوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا مسلم مخالف ایجنڈہ بہت پرانا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سینئر کارکن اویس سلطان خان نے کہا کہ اگر اقلیتیں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کی آواز دبا دی جاتی ہے۔
انھوں نے اس صورت حال کے لیے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ مرکزی حکومت نے شہریت میں ترمیم کا قانون بنایا اور اترپردیش کی حکومت نے 'لو جہاد' مخالف قانون بنایا۔ جب کہ دونوں قوانین آئین کے خلاف ہیں۔ لیکن عدالتیں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ کوئی اقدام نہیں اٹھاتیں۔
ان کے مطابق سی اے اے اقلیتوں کے نام پر مسلم اقلیت کے خلاف حکومت کا ایک ہتھیار ہے۔
مختلف بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے بھی بھارت میں اقلیتوں کو مبینہ طور پر ان کے مذہبی و آئینی حقوق سے محروم کرنے پر وقتاً فوقتاً اظہار تشویش کیا جاتا ہے۔
حکومت اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی یا انھیں ان کے حقوق سے محروم کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے اور کسی بھی اقلیت کے ساتھ امتیاز نہیں برتتی۔
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اقلیتوں کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے عہد کی پابند ہے۔