پاکستان کی وزارت دفاع نے پشاور ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ تین سال قبل ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے شہر کوہاٹ سے لاپتا ہونے والا بھارتی شہری پاکستانی فوج کی تحویل میں ہے۔
اس بات کی تصدیق وزارت دفاع کی طرف سے بدھ کو پشاور ہائی کورٹ کے سامنے ایک تحریری بیان میں کی گئی جو پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل مسرت اللہ خان نے عدالت کے سامنے پیش کیا۔
بھارت کے شہری حامد انصاری کی والدہ فوزیہ انصاری نے اپنے لاپتا بیٹے کے بارے میں حقیقت جاننے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اس درخواست کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
فوزیہ انصاری کے وکیل قاضی انور نے وائس آف امریکہ سےگفتگو میں کہا کہ وزارت دفاع کی طرف سے عدالت کو ایک تحریری بیان میں بتایا گیا کہ حامد انصاری فوج کی تحویل میں ہے اور اس کے خلاف ایک فوجی عدالت میں کارروائی ہو رہی ہے۔
تاہم قاضی انوار کے بقول ملزم کے خلاف الزام کی نوعیت سے متعلق عدالت کو کچھ نہیں بتایا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ نے بعد میں حامد انصاری کی والدہ فوزیہ انصاری کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ کیونکہ اب وزارت دفاع نے انکشاف کر دیا ہے کہ وہ فوج کی تحویل میں ہے اس لیے اس درخواست کا جواز باقی نہیں رہا۔
درخواست گزار کے وکیل قاضی محمد انور نے کہا کہ لاپتا بھارتی شہری کو پولیس اور انٹیلی جنس بیورو نے نومبر 2012 میں کوہاٹ میں تحویل میں لیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس کا 27 سالہ بیٹا افغانستان میں ملازمت کی تلاش میں گیا تھا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے اس کی دوستی ایک پاکستانی لڑکی سے ہو گئی جس سے ملنے وہ بغیر ویزا کے پاکستان چلا آیا۔
بیٹے کے لاپتا ہونے کے بعد بھارتی شہر ممبئی کی مقامی پولیس کو اطلاع دینے اور افغانستان میں بھارتی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کے بعد فوزیہ انصاری نے پاکستان کی سپریم میں درخواست دی جسے مارچ 2014 میں لاپتا افراد کے انکوائری کمیشن کارروائی کے لیے بھیج دیا گیا۔
اپریل میں کمیشن نے خیبر پختونخواہ کے محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کو حامد انصاری کی تلاش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ضلع کرک میں سٹی پولیس اسٹیشن پر اس کی بازیابی کے لیے ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔