پاکستان کے اپنے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات میں گزشتہ سال سے سرد مہری دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ مبصرین دونوں جانب اعتماد کے فقدان کو قرار دیتے ہوئے دونوں ملکوں سے بات چیت کا سلسلہ بحال کرنے پر زور دیتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے حکومتی سطح پر باہمی رابطے بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم گزشتہ نومبر میں پاکستانی فوج کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جنرل راحیل شریف اور پھر بعد ازاں ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے افغان قیادت سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔
اب ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ متعدد پاکستانی قانون ساز، سیاستدان اور ذرائع ابلاغ کے نمایاں صحافیوں پر مشتمل ایک وفد عنقریب افغانستان کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا مقصد افغان قیادت اور دیگر عہدیداروں سے ملاقاتیں کر کے عدم اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
ماضی میں ایسے ہی وفود میں شریک رہنے والے پاکستان کے سابق سینیٹر اور قوم پرست راہنما افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ دونوں جانب پائی جانے والی بد اعتمادی کو باہمی رابطوں کو فروغ دے کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں خاص طور پر پاکستان کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ان کے بقول اپریل میں افغانستان میں نام نہاد "سپرنگ افنسیو" سے قبل ہی اقدام کرنے ہوں گے تاکہ وہاں لڑائی مزید نہ بڑھ سکے۔
"اصل میں پاکستان اور افغانستان کو آپس میں بات کرنا ہو گی، ہمیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ دوسرے ملک آکر ہمیں مذاکرات کے لیے بٹھائیں گے ۔۔۔۔ آپ دوست تو چن سکتے ہیں پڑوسی آپ چن نہیں سکتے پڑوسیوں کو ساتھ رہنا ہوتا ہے۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ دونوں اگر بیٹھ جائیں تو راہ نکل سکتی ہے، سارے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔"
افراسیاب خٹک کا مزید کہنا تھا کہ حالات میں ابتری کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی۔
"جنگ میں نقصان دونوں کا ہے ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ملک میں جنگ ہو گی تو دوسرے میں امن ہو گا، ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ایک ملک میں جنگ دوسرے ملک کے اندر آ جاتی ہے جیسے ماضی میں افغان جنگ پاکستان میں آ گئی تھی اور مستقبل میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔"
افغان قانون ساز سید اسحٰق گیلانی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تعلقات میں خرابی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے اور غلط فہمیوں کو بات چیت کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "دونوں ملکوں کی اچھائی اور برائی مشترک ہے۔ اگر افغانستان بات کرنے میں تھوڑی کمزوری دکھاتا ہے تو پاکستان متحرک ہو اگر پاکستان سستی کرتا ہے تو افغانستان آگے بڑھے۔ میرے خیال میں بات اتنی مشکل نہیں ہے جتنا اسے بنا دیا گیا ہے۔"
افغانستان یہ الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین استعمال کرنے والے ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو افغان علاقوں میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان سرحد پر نگرانی کو موثر نہ بنا کر ناصرف دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے میں معاونت نہیں کر رہا بلکہ وہ اس کے روایتی حریف بھارت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔
کابل اور نئی دہلی دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
افغان سیاست دان اسحٰق گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ دونوں حکومتوں کو مشورہ دیں گے جلد از جلد بات چیت کے لیے بیٹھیں اور باہمی مسائل کا حل تلاش کریں۔