بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں امن کی اپیل کی ہے، جہاں گذشتہ تین دِنوں کے دوران پُرتشدد احتجاج جاری ہے۔
کشیدگی اُس وقت شروع ہوئی جب سکیورٹی افواج نے ایک مقامی شدت پسند کمانڈر کو ہلاک کیا، جس کے بعد تقریباً 30 ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں اور ہفتے کے دِن سے خطے کا کافی علاقہ بند پڑا ہوا ہے۔
خطے بھر میں کرفیو نافذ ہے جہاں کبھی کبھار احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
افریقہ سے واپسی پر مودی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا تھا، جس میں وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت جتندر سنگھ نے بتایا کہ مودی نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اور صورت حال بحال کرنے کے لیے لوگوں سے امن کی اپیل کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ تناؤ میں کمی لانے کے لیے وزیر اعظم نے ریاستی حکومت کی مدد کا وعدہ کیا۔
سنگھ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ بے گناہ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا یا اُنھیں کوئی زخمت نہیں ہوگی۔
خطے میں سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے، بھارت نے مزید فوج روانہ کردی ہے۔
معروف کشمیری علیحدگی پسند رہنما، میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ ’’مزید فوجی بھیجنے سے، جس اقدام کا حکومت نے فیصلہ کیا ہے، اور زیادہ اختیارات دینا مشتعل ماحول میں ایندھن کا کام کرے گا، چونکہ لوگ اِس کی سخت مخالفت کریں گے‘‘۔
علیحدگی پسند رہنماؤں نے بدھ کے روز سے عام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔
حالانکہ علیحدگی پسندوں کی پُرتشدد بغاوت کم ہوچکی ہے، 22 برس کے باغی کمانڈر برہان وانی کی موت سے احتجاج بھڑک اٹھا ہے، جس سے اس بات کا خوف ہے کہ ایک بار پھر نوجوان شدت پسندی کی جانب راغب ہوں گے، جو خطے میں ہونے والی پُرتشدد ہنگامہ آرائی میں پیش پیش رہ چکے ہیں۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے جاری کردہ ایک بیان میں سکریٹری جنرل بان کی مون نے تمام فریق سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں، تاکہ تشدد کے مزید واقعات سے بچا جاسکے،اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ تشویش کے تمام معاملات سے پُرامن طریقے سے نمٹا جائے گا۔