مودی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ "جن کے سروں پر ٹوپیاں اور ایک ہاتھ میں قرآن ہوتا ہے، ان کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر تھما دیں"۔
واشنگٹن —
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے متوقع امیدوار نریندر مودی نے خود پر مسلمان مخالف ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہفتے کو ایک ٹی وی انٹرویو ہندو قوم پرست رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں "جن کے سروں پر ٹوپیاں اور ایک ہاتھ میں قرآن ہوتا ہے، ان کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر تھما دینا چاہیے"۔
انٹرویو کے دوران جب میزبان نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے تین سال قبل گجرات میں ایک مسلمان رہنما کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹوپی لینے سے کیوں انکار کردیا تھا، تو مودی کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اس طرح کے دکھاوے پر یقین نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی لیے انہیں ٹوپی پہننا پسند نہیں۔
خیال رہے کہ ہندوستان میں ٹوپی مسلمانوں سے منسوب کی جاتی ہے۔
بھارت میں جاری عام انتخابات کے دوران ہندو مسلم تعلقات ایک مرکزی موضوع ہے اور نریندر مودی جیسے صفِ اول کے امیدوار کے ماضی کے باعث بھارت کے مسلمان اور لبرل حلقے ان پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
مودی بھارتی ریاست گجرات کے مسلسل تیسری بار منتخب ہونے والے وزیرِاعلیٰ ہیں اور ان کا تعلق حزبِ اختلاف کی ہندو قوم پرست جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' سے ہے۔
مودی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2002ء میں ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات روکنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی تھی جن میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
حالیہ عام انتخابات میں امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ 'بی جے پی' موجودہ حکمران جماعت کانگریس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی جس کے بعد مودی کے وزیرِاعظم بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
مودی کے وزیرِاعظم بننے کے امکانات سے بھارت کی اقلیتیں خصوصاً مسلمان تشویش کا شکار ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 13 فی صد ہیں۔
تاہم ہفتے کو نشر ہونے والے اپنے انٹرویو میں نریندر مودی نے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ یا ان کی جماعت مذہبی تعصب رکھتے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ روز بھارت کے الیکشن کمیشن نے مودی کے سب سے قریبی ساتھی اور مشیر امیت شاہ کو انتخابی ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا تھا۔
امیت شاہ نے حالیہ انتخابی جلسوں کے دوران کئی ایسی تقاریر کی تھیں جنہیں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف تعصب بھڑکانے کی کوشش قرار دیا جارہا تھا۔
ہفتے کو ایک ٹی وی انٹرویو ہندو قوم پرست رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں "جن کے سروں پر ٹوپیاں اور ایک ہاتھ میں قرآن ہوتا ہے، ان کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر تھما دینا چاہیے"۔
انٹرویو کے دوران جب میزبان نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے تین سال قبل گجرات میں ایک مسلمان رہنما کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹوپی لینے سے کیوں انکار کردیا تھا، تو مودی کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اس طرح کے دکھاوے پر یقین نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی لیے انہیں ٹوپی پہننا پسند نہیں۔
خیال رہے کہ ہندوستان میں ٹوپی مسلمانوں سے منسوب کی جاتی ہے۔
بھارت میں جاری عام انتخابات کے دوران ہندو مسلم تعلقات ایک مرکزی موضوع ہے اور نریندر مودی جیسے صفِ اول کے امیدوار کے ماضی کے باعث بھارت کے مسلمان اور لبرل حلقے ان پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
مودی بھارتی ریاست گجرات کے مسلسل تیسری بار منتخب ہونے والے وزیرِاعلیٰ ہیں اور ان کا تعلق حزبِ اختلاف کی ہندو قوم پرست جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' سے ہے۔
مودی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2002ء میں ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات روکنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی تھی جن میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
حالیہ عام انتخابات میں امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ 'بی جے پی' موجودہ حکمران جماعت کانگریس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گی جس کے بعد مودی کے وزیرِاعظم بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
مودی کے وزیرِاعظم بننے کے امکانات سے بھارت کی اقلیتیں خصوصاً مسلمان تشویش کا شکار ہیں جو ملک کی کل آبادی کا 13 فی صد ہیں۔
تاہم ہفتے کو نشر ہونے والے اپنے انٹرویو میں نریندر مودی نے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ یا ان کی جماعت مذہبی تعصب رکھتے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ روز بھارت کے الیکشن کمیشن نے مودی کے سب سے قریبی ساتھی اور مشیر امیت شاہ کو انتخابی ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا تھا۔
امیت شاہ نے حالیہ انتخابی جلسوں کے دوران کئی ایسی تقاریر کی تھیں جنہیں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف تعصب بھڑکانے کی کوشش قرار دیا جارہا تھا۔