یہ مضمون نئی دہلی سے شائع ہونے والے موقر روزنامے ’جدیدخبر‘ میں 12 اگست کو شائع ہوا۔ ہم اسے اخبار کے ایڈیٹر معصوم مراد آبادی کے شکریے کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔
گلوکاری کے شہنشاہ محمد رفیع کی برسی ابھی ابھی گزری ہے۔ اس موقع پر اخبارات و رسائل اور ریڈیوز نے ان کو اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے بھی ان کا ایک تاریخی انٹرویو نشر کر کے انھیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اس پروگرام میں محمد رفیع کے انٹرویو کے علاوہ خود انہی کے پسندیدہ نغمے اور اپنے زمانے کے عالمی شہرت یافتہ براڈکاسر امین سیانی کا خصوصی تبصرہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ انٹرویو سبھاش ووہرا نے بڑی جاں فشانی کے بعد لیا تھا۔ ان دنوں وہ بی بی سی ہندی سروس سے وابستہ تھے۔ پروگرام نشر کرنے اور اسے اردو ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے میں اردو سروس کے چیف فیض رحمن، سینئر براڈکاسٹر رضی احمد رضوی اور اردو ویب سائٹ کے ہیڈ عمران صدیقی کی خصوصی دلچسپی کارفرما رہی۔
یہ پروگرام رضی احمد رضوی، وی او اے ہی کی رشمی شکلا اور سبھاش ووہرا نے پیش کیا۔ رضی احمد رضوی نے ابتدا میں پروگرام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے محمد رفیع کی زندگی اور ان کے فن پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ گائیکی کی دنیا میں محمد رفیع کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہندوستان، پاکستان اور دنیا میں جہاں جہاں بھی جنوبی ایشیا کے لوگ بستے ہیں، محمد رفیع کی مدھر آواز اور گانوں سے آ ج بھی ہمیشہ کی طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔انھوں نے موسیقی کی دنیا میں جو اپنا منفرد نقش چھوڑا ہے اسی نے انھیں تمام گلوکاروں سے ایک جدا مقام عطا کیا ہے۔
غزل ہو یا گیت یا رومانوی اور ہلکے پھلکے نغمے، بھجن یا قوالی، حتیٰ کہ پاپ گانیں، سبھی میں محمد رفیع نہایت ممتاز نظر آتے ہیں اور انھوں نے ان کا پورا حق ادا کیا ہے ۔ امرتسرکے پاس ایک گاو¿ں میں جنم لینے والے محمد رفیع نے اپنے فن کا سفر ممبئی سے شروع کیا، جو آج فن کی دنیا میں بالی ووڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تقریباً چالیس برسوں پر محیط اپنے فنی سفر میں محمد رفیع نے جو ورثہ چھوڑا ہے وہ جنوبی ایشیا میں آج بھی موسیقی کی دنیا کا نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے والا فنکار اپنی عام زندگی میں نہایت کم گو اور ایک سادہ انسان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اِس اعتبار سے محمد رفیع کو درویش منش بھی کہا جاسکتا ہے ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت ہی کم انٹرویوز دیے ہوں گے۔ تاہم، 1977 کی بات ہے جب ہمارے ساتھی براڈکاسٹر سبھاش ووہرا نے، جو ا±س وقت لندن میں بی بی سی سے منسلک تھے، انھیں انٹرویو پر رضامند کر ہی لیا۔ اِسی انٹرویو پرمبنی’ ’ وائس آف امریکہ‘ ‘کی اردو سروس نے محمد رفیع کی برسی کے موقع پر ایک خصوصی پروگرام ترتیب دیا، جس میں رفیع ہی کے اپنے پسندیدہ نغموں کا ایک انتخاب بھی شامل ہے
اسی پروگرام میں آپ محمد رفیع کے بارے میں بالی ووڈ کے مشہور براڈکاسٹر امین سیانی کی یادیں بھی سن سکیں گے۔ آج گو محمد رفیع ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن گائیکی کی دنیا میں جو بیش بہا خزانہ انھوں نے چھوڑا ہے اس کی وجہ سے ان کا نام فن کی دنیا میں ایک درخشاں ستارے کی مانند ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی یہ پیشکش بھی انھیں خراج ِعقیدت پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
انٹرویو کا آغاز محمد رفیع کے اس نغمے سے ہوتا ہے کہ تجھے کیا سناو¿ں اے دلربا ترے سامنے میرا حال ہے۔ سبھاش ووہرا نے، جو کہ اب وی او اے سے وابستہ ہیں، بتاتے ہیں کہ چونکہ محمد رفیع کسی کو انٹرویو نہیں دیتے تھے اس لیے ان کو اس انٹرویو کے حصول میں کافی تگ ودو کرنی پڑی تھی۔ محمد رفیع نے بہت کم انٹرویو دیے ہیں اور مجھے کافی کشمکش کے بعد ان سے ملاقات اور انٹرویو کا موقع ملا۔ یہ پروگرام میں انہی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن اچانک 31جولائی 1980کو ان کے انتقال کی وجہ سے میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ رفیع صاحب جیسے آرٹسٹ سے جنھوں نے ہزاروں نغمے گائے ہوں یہ پوچھنا اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو کون سا گیت سب سے اچھا ہے۔ ہاں میں نے ان سے یہ ضرور پوچھا کہ رفیع صاحب آپ کا ایسا کون سا گیت ہے جو آپ اپنے تنہائی کے لمحات میں اکثر گنگنایا کرتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ”سہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آو¿گے“ ۔ یہ ایسا نغمہ ہے جو میں تنہائی میں گنگنایا کرتا ہوں۔ سبھاش ووہرا کے مطابق یہ بات 1977کی ہے جب میں لندن میں بی بی سی میں کام کرتا تھا۔
اس وقت رفیع صاحب برطانیہ کے دورے پر آئے تھے۔ کئی بار فون کرنے پر بھی ان کے منیجر یہی کہتے رہے کہ جناب رفیع صاحب انٹرویو نہیں دیتے وہ زیادہ بات نہیں کرتے وہ صرف گاتے ہیں۔ بہر حال کئی بار کی کوشش کے بعد میں انھیں اس پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ جناب مجھے صرف ان سے ملنے کی اجازت دے دیجیے۔ بہر حال انھوں نے اجازت دے دی اور میں رفیع صاحب کے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا تو رفیع صاحب سوفے سے اٹھ کر جھک کر سلام کرنے لگے۔ میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ اتنے بڑے آرٹسٹ او راتنے سادہ بھلے انسان۔ وہ نہایت دھیمی اور نرم آواز میں بولتے تھے۔ آہستہ سے بولے کیا کریں گے آپ میرا انٹرویو لے کر میں تو بس گاتا ہوں۔ بہر حال کسی طرح میں نے انھیں بات چیت کے لیے راضی کر لیا۔ لیکن جب ان سے بات کرنی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ انٹرویو تو میرے لیے ایک چنوتی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ میں جو بھی سوال پوچھتا تھا اس کا وہ مختصر سا جواب دےتے تھے۔ ان کے فن کے بارے میں جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے انتہائی ہلکی آواز میں کہا کہ یہ تو سب اوپر والے کی مہربانی ہے اسی کا تحفہ ہے بس اور کچھ نہیں۔
جب ان سے سوال کیا کہ ان کے استاد کون ہیں تو انھوں نے بتایا کہ گانے کے سلسلے میں وہ ایک فقیر سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے خود ہی بتاتے ہوئے کہا کہ میری بارہ سال کی عمر تھی تو ہم امرتسر کے گاو¿ں میں رہتے تھے۔ وہاں ایک فقیر آیا کرتا تھا اور وہ گا کے پیسہ مانگتا تھا۔ مجھے اس کی آواز اچھی لگتی تھی تو میں اس کو سننے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے بہت دور تک جایا کرتا تھا۔ اور اس طرح اس فقیر کو سن سن کے مجھے گانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب ان سے ان کے پسندیدہ گلو کاروں کے بارے میں سوال کیا توانھوں نے کہا کہ ان دنوں میں سہگل صاحب، ودیا سیٹھ، پنکج ملک وغیرہ کے ریکارڈ بجا کرتے تھے جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ انھوں نے کوئی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اپنی تعلیم کے سلسلے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے گاو¿ں میں ایک چھوٹا سا اسکول تھا جس میں میں نے بس ایک دو جماعت ہی پڑھی تھی۔ مجھے صرف گانے کا شوق تھا۔ ان کو گانے کے علاوہ بھی اور کیا کیا شوق تھے؟ اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ ان کو کوئی شوق نہیں ہے، نہ ڈرنک کا نہ اسموکنگ کا ۔ ہاں ایک شوق اور ہے اور وہ ہے کہ میں صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھتا ہوں اور بیڈ منٹن کھیلتا ہوں۔ بس اور کوئی شوق نہیں۔ آج گانوں کا معیار بدل گیا ہے اور جس قسم کے گانے اب چل رہے ہیں ان پر ہر اہل ذوق کڑھتا ہے۔ آج بھی پرانے نغموں کو پسند کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں بھی پرانے نغموں کو پسند کیا جاتا تھا۔ جب ہم نے محمد رفیع سے نئے اور پرانے گیتوں میں فرق کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے پرانے نغموں کی تعریف کی اور کہا کہ پرانے نغموں میں شاعری بہت اچھی ہوتی تھی، ان میں مفہوم ہوتا تھا، نغمگی ہوتی تھی، سُر ہوتے تھے اور وہ سنتے ہی روح کے اندر اتر جاتے تھے۔ آجکل کے گانے ان تمام خوبیوں سے محروم ہیں۔
اس انٹرویو میں اپنے زمانے کے عالمی شہرت یافتہ براڈکانسر امین سیانی نے بھی خصوصی تبصرہ کیا ہے۔ جب انھیں سبھاش ووہرا نے بتایا کہ انھوں نے محمد رفیع کا انٹرویو کیا تھا جسے وہ وی او اے پر پیش کریں گے تو انھوں نے رفیع صاحب کے بارے میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے چہیتے ریڈیو اسٹیشن وائس آف امریکہ سے محمد رفیع صاحب پر پروگرام ہونے والا ہے او راس میں مجھے بھی بولنے کو کہا گیا ہے۔ رفیع صاحب کی مہانتا تو سبھی جانتے ہیں۔ میں نے بھی جب ریڈیو سیلون سے اپنا ہٹ پروگرام کاونٹ ڈاو¿ن پروگرام بناکا گیت مالا شروع کیا اور بعد میں وہ آل انڈیا ریڈیو پر بھی آیا تو اس میں کئی برسوں تک رفیع صاحب ہی چھائے رہے۔ ہفتہ واری پائیدانوں پر ہی نہیں بلکہ سالانہ سیڑھی پر بھی ان کا راج رہا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں رفیع صاحب کو کافی قریب سے جان پایا۔ وہ بڑے پیار سے مسکرا کر سب سے ملا کرتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ بڑی پیاری تھی۔
میں نے ان میں کبھی غصہ یا جھنجھلاہٹ نہیں دیکھی بہت خاموشی سے اور پیار سے لوگوں سے ملتے تھے۔ وہ بہت دھیرے دھیرے بولتے تھے مگر جب اسٹیج پر آتے تھے تو بالکل شیر بن جاتے تھے۔ گانے کے رنگ میں ڈھل جایا کرتے تھے اور اسی رنگ میں گاتے تھے۔ رفیع صاحب کی ایک خاص بات یہ رہی کہ وہ جب بھی بمبئی کے باہر یا ہندوستان کے باہر کسی شو میں جاتے تھے تو منتظمین کے سامنے ان کی ایک شرط ہوتی تھی کہ آپ جس ہوٹل میں مجھے رکھیں گے میرے سارے یونٹ کو بھی تمام لوگوں کو بھی اسی ہوٹل میں رکھیں گے۔ اس وجہ سے ان کا سارا یونٹ ان سے بہت خوش رہتا تھا او رانھیں بہت پیار کرتا تھا۔ میں رفیع صاحب کے قریب براڈ کاسٹنگ کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے اسٹیج شوز کے ذریعے پہنچ پایا۔ رفیع صاحب سے انٹرویو کرنے کی کوشش میں جب بھی کرتا تو وہ مکر جاتے۔ کسی نہ کسی طرح منھ پھیر کر مسکرا کر نکل جاتے۔ بہت کوشش کے بعد یہ راز کھلا کہ گانے میں تو وہ استاد ہیں لیکن بولنے میں ذرا شرمیلے سے ہیں۔ دنیا میں دو تین ہی ان کے ایسے انٹرویو ہوں گے جن میں وہ زیادہ بولے ہوں گے۔
زیادہ تر انٹرویو میں وہ ہوں ہاں کہہ کر ٹال جاتے تھے۔ بہت کوشش کے بعد میں نے ان سے کہا کہ رفیع بھائی آپ کا انٹرویو کیسے ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ایک شرط پر ہو سکتا ہے۔ میں نے تجسس میں کہا کہ کون سی شرط پر؟ تو انھوں نے کہا کہ دیکھو تم سوال اس طرح بناو¿ کہ میں ہر سوال کا جواب کسی گیت کو گا کر دے سکوں۔میں نے کہا کہ رفیع صاحب آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن ہے مشکل میں گانے تو چن ہی لوں گا ۔ بہر حال چلیے آپ نے کہا ہے تو میں شروع کرتا ہوں۔ تو جناب میں نے وہ انٹرویو پلان کرنا شروع کیا مگر ہوتے ہوتے بہت وقت گزر گیا۔اور ایک دن اچانک پتہ چلا کہ مہان گائیک رفیع صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میں بھی ان لاکھوں لوگوں میں شامل تھا جو ان کے جنازے کے ساتھ قبرستان کی جانب چلے۔ باندرہ میں ان کے گھر کے پاس ہی قبرستان تھا۔ میں بھی چلا اور تھوڑی تھوڑی سی بارش ہو رہی تھی لیکن بارش کی پروا کس کو تھی۔ ہمارا بڑا ہی پیارا گائیک اور بڑا ہی پیارا انسان محمد رفیع جا رہا تھا سب کو چھوڑ کر۔ گویا یہ کہتے ہوئے کہ دل کا سونا ساز ترانہ ڈھونڈے گا، تیر نگاہ ناز نشانہ ڈھونڈے گا، مجھو کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا۔
پروگرام کے دوران محمد رفیع کے پسندیدہ نغمے اسکرپٹ کے مطابق جگہ جگہ ڈالے گئے ۔ پروگرام کا اختتام بھی ان ہی کے اس مشہور نغمے پر ہوا کہ : یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افوس ہم نہ ہوں گے۔ اس عظیم گلوکار کو وائس آف امریکہ کا یہ خراج عقیدت سامعین کو بہت پسند آیا۔
یہ پروگرام رضی احمد رضوی، وی او اے ہی کی رشمی شکلا اور سبھاش ووہرا نے پیش کیا۔ رضی احمد رضوی نے ابتدا میں پروگرام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے محمد رفیع کی زندگی اور ان کے فن پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ گائیکی کی دنیا میں محمد رفیع کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہندوستان، پاکستان اور دنیا میں جہاں جہاں بھی جنوبی ایشیا کے لوگ بستے ہیں، محمد رفیع کی مدھر آواز اور گانوں سے آ ج بھی ہمیشہ کی طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔انھوں نے موسیقی کی دنیا میں جو اپنا منفرد نقش چھوڑا ہے اسی نے انھیں تمام گلوکاروں سے ایک جدا مقام عطا کیا ہے۔
غزل ہو یا گیت یا رومانوی اور ہلکے پھلکے نغمے، بھجن یا قوالی، حتیٰ کہ پاپ گانیں، سبھی میں محمد رفیع نہایت ممتاز نظر آتے ہیں اور انھوں نے ان کا پورا حق ادا کیا ہے ۔ امرتسرکے پاس ایک گاو¿ں میں جنم لینے والے محمد رفیع نے اپنے فن کا سفر ممبئی سے شروع کیا، جو آج فن کی دنیا میں بالی ووڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تقریباً چالیس برسوں پر محیط اپنے فنی سفر میں محمد رفیع نے جو ورثہ چھوڑا ہے وہ جنوبی ایشیا میں آج بھی موسیقی کی دنیا کا نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے والا فنکار اپنی عام زندگی میں نہایت کم گو اور ایک سادہ انسان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اِس اعتبار سے محمد رفیع کو درویش منش بھی کہا جاسکتا ہے ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت ہی کم انٹرویوز دیے ہوں گے۔ تاہم، 1977 کی بات ہے جب ہمارے ساتھی براڈکاسٹر سبھاش ووہرا نے، جو ا±س وقت لندن میں بی بی سی سے منسلک تھے، انھیں انٹرویو پر رضامند کر ہی لیا۔ اِسی انٹرویو پرمبنی’ ’ وائس آف امریکہ‘ ‘کی اردو سروس نے محمد رفیع کی برسی کے موقع پر ایک خصوصی پروگرام ترتیب دیا، جس میں رفیع ہی کے اپنے پسندیدہ نغموں کا ایک انتخاب بھی شامل ہے
اسی پروگرام میں آپ محمد رفیع کے بارے میں بالی ووڈ کے مشہور براڈکاسٹر امین سیانی کی یادیں بھی سن سکیں گے۔ آج گو محمد رفیع ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن گائیکی کی دنیا میں جو بیش بہا خزانہ انھوں نے چھوڑا ہے اس کی وجہ سے ان کا نام فن کی دنیا میں ایک درخشاں ستارے کی مانند ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی یہ پیشکش بھی انھیں خراج ِعقیدت پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
انٹرویو کا آغاز محمد رفیع کے اس نغمے سے ہوتا ہے کہ تجھے کیا سناو¿ں اے دلربا ترے سامنے میرا حال ہے۔ سبھاش ووہرا نے، جو کہ اب وی او اے سے وابستہ ہیں، بتاتے ہیں کہ چونکہ محمد رفیع کسی کو انٹرویو نہیں دیتے تھے اس لیے ان کو اس انٹرویو کے حصول میں کافی تگ ودو کرنی پڑی تھی۔ محمد رفیع نے بہت کم انٹرویو دیے ہیں اور مجھے کافی کشمکش کے بعد ان سے ملاقات اور انٹرویو کا موقع ملا۔ یہ پروگرام میں انہی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن اچانک 31جولائی 1980کو ان کے انتقال کی وجہ سے میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ رفیع صاحب جیسے آرٹسٹ سے جنھوں نے ہزاروں نغمے گائے ہوں یہ پوچھنا اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو کون سا گیت سب سے اچھا ہے۔ ہاں میں نے ان سے یہ ضرور پوچھا کہ رفیع صاحب آپ کا ایسا کون سا گیت ہے جو آپ اپنے تنہائی کے لمحات میں اکثر گنگنایا کرتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ”سہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آو¿گے“ ۔ یہ ایسا نغمہ ہے جو میں تنہائی میں گنگنایا کرتا ہوں۔ سبھاش ووہرا کے مطابق یہ بات 1977کی ہے جب میں لندن میں بی بی سی میں کام کرتا تھا۔
اس وقت رفیع صاحب برطانیہ کے دورے پر آئے تھے۔ کئی بار فون کرنے پر بھی ان کے منیجر یہی کہتے رہے کہ جناب رفیع صاحب انٹرویو نہیں دیتے وہ زیادہ بات نہیں کرتے وہ صرف گاتے ہیں۔ بہر حال کئی بار کی کوشش کے بعد میں انھیں اس پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ جناب مجھے صرف ان سے ملنے کی اجازت دے دیجیے۔ بہر حال انھوں نے اجازت دے دی اور میں رفیع صاحب کے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا تو رفیع صاحب سوفے سے اٹھ کر جھک کر سلام کرنے لگے۔ میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ اتنے بڑے آرٹسٹ او راتنے سادہ بھلے انسان۔ وہ نہایت دھیمی اور نرم آواز میں بولتے تھے۔ آہستہ سے بولے کیا کریں گے آپ میرا انٹرویو لے کر میں تو بس گاتا ہوں۔ بہر حال کسی طرح میں نے انھیں بات چیت کے لیے راضی کر لیا۔ لیکن جب ان سے بات کرنی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ انٹرویو تو میرے لیے ایک چنوتی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ میں جو بھی سوال پوچھتا تھا اس کا وہ مختصر سا جواب دےتے تھے۔ ان کے فن کے بارے میں جب میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے انتہائی ہلکی آواز میں کہا کہ یہ تو سب اوپر والے کی مہربانی ہے اسی کا تحفہ ہے بس اور کچھ نہیں۔
جب ان سے سوال کیا کہ ان کے استاد کون ہیں تو انھوں نے بتایا کہ گانے کے سلسلے میں وہ ایک فقیر سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے خود ہی بتاتے ہوئے کہا کہ میری بارہ سال کی عمر تھی تو ہم امرتسر کے گاو¿ں میں رہتے تھے۔ وہاں ایک فقیر آیا کرتا تھا اور وہ گا کے پیسہ مانگتا تھا۔ مجھے اس کی آواز اچھی لگتی تھی تو میں اس کو سننے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے بہت دور تک جایا کرتا تھا۔ اور اس طرح اس فقیر کو سن سن کے مجھے گانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب ان سے ان کے پسندیدہ گلو کاروں کے بارے میں سوال کیا توانھوں نے کہا کہ ان دنوں میں سہگل صاحب، ودیا سیٹھ، پنکج ملک وغیرہ کے ریکارڈ بجا کرتے تھے جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ انھوں نے کوئی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اپنی تعلیم کے سلسلے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے گاو¿ں میں ایک چھوٹا سا اسکول تھا جس میں میں نے بس ایک دو جماعت ہی پڑھی تھی۔ مجھے صرف گانے کا شوق تھا۔ ان کو گانے کے علاوہ بھی اور کیا کیا شوق تھے؟ اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ ان کو کوئی شوق نہیں ہے، نہ ڈرنک کا نہ اسموکنگ کا ۔ ہاں ایک شوق اور ہے اور وہ ہے کہ میں صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھتا ہوں اور بیڈ منٹن کھیلتا ہوں۔ بس اور کوئی شوق نہیں۔ آج گانوں کا معیار بدل گیا ہے اور جس قسم کے گانے اب چل رہے ہیں ان پر ہر اہل ذوق کڑھتا ہے۔ آج بھی پرانے نغموں کو پسند کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں بھی پرانے نغموں کو پسند کیا جاتا تھا۔ جب ہم نے محمد رفیع سے نئے اور پرانے گیتوں میں فرق کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے پرانے نغموں کی تعریف کی اور کہا کہ پرانے نغموں میں شاعری بہت اچھی ہوتی تھی، ان میں مفہوم ہوتا تھا، نغمگی ہوتی تھی، سُر ہوتے تھے اور وہ سنتے ہی روح کے اندر اتر جاتے تھے۔ آجکل کے گانے ان تمام خوبیوں سے محروم ہیں۔
میں نے ان میں کبھی غصہ یا جھنجھلاہٹ نہیں دیکھی بہت خاموشی سے اور پیار سے لوگوں سے ملتے تھے۔ وہ بہت دھیرے دھیرے بولتے تھے مگر جب اسٹیج پر آتے تھے تو بالکل شیر بن جاتے تھے۔ گانے کے رنگ میں ڈھل جایا کرتے تھے اور اسی رنگ میں گاتے تھے۔ رفیع صاحب کی ایک خاص بات یہ رہی کہ وہ جب بھی بمبئی کے باہر یا ہندوستان کے باہر کسی شو میں جاتے تھے تو منتظمین کے سامنے ان کی ایک شرط ہوتی تھی کہ آپ جس ہوٹل میں مجھے رکھیں گے میرے سارے یونٹ کو بھی تمام لوگوں کو بھی اسی ہوٹل میں رکھیں گے۔ اس وجہ سے ان کا سارا یونٹ ان سے بہت خوش رہتا تھا او رانھیں بہت پیار کرتا تھا۔ میں رفیع صاحب کے قریب براڈ کاسٹنگ کے ذریعے نہیں بلکہ ان کے اسٹیج شوز کے ذریعے پہنچ پایا۔ رفیع صاحب سے انٹرویو کرنے کی کوشش میں جب بھی کرتا تو وہ مکر جاتے۔ کسی نہ کسی طرح منھ پھیر کر مسکرا کر نکل جاتے۔ بہت کوشش کے بعد یہ راز کھلا کہ گانے میں تو وہ استاد ہیں لیکن بولنے میں ذرا شرمیلے سے ہیں۔ دنیا میں دو تین ہی ان کے ایسے انٹرویو ہوں گے جن میں وہ زیادہ بولے ہوں گے۔
زیادہ تر انٹرویو میں وہ ہوں ہاں کہہ کر ٹال جاتے تھے۔ بہت کوشش کے بعد میں نے ان سے کہا کہ رفیع بھائی آپ کا انٹرویو کیسے ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ایک شرط پر ہو سکتا ہے۔ میں نے تجسس میں کہا کہ کون سی شرط پر؟ تو انھوں نے کہا کہ دیکھو تم سوال اس طرح بناو¿ کہ میں ہر سوال کا جواب کسی گیت کو گا کر دے سکوں۔میں نے کہا کہ رفیع صاحب آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن ہے مشکل میں گانے تو چن ہی لوں گا ۔ بہر حال چلیے آپ نے کہا ہے تو میں شروع کرتا ہوں۔ تو جناب میں نے وہ انٹرویو پلان کرنا شروع کیا مگر ہوتے ہوتے بہت وقت گزر گیا۔اور ایک دن اچانک پتہ چلا کہ مہان گائیک رفیع صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میں بھی ان لاکھوں لوگوں میں شامل تھا جو ان کے جنازے کے ساتھ قبرستان کی جانب چلے۔ باندرہ میں ان کے گھر کے پاس ہی قبرستان تھا۔ میں بھی چلا اور تھوڑی تھوڑی سی بارش ہو رہی تھی لیکن بارش کی پروا کس کو تھی۔ ہمارا بڑا ہی پیارا گائیک اور بڑا ہی پیارا انسان محمد رفیع جا رہا تھا سب کو چھوڑ کر۔ گویا یہ کہتے ہوئے کہ دل کا سونا ساز ترانہ ڈھونڈے گا، تیر نگاہ ناز نشانہ ڈھونڈے گا، مجھو کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا۔
پروگرام کے دوران محمد رفیع کے پسندیدہ نغمے اسکرپٹ کے مطابق جگہ جگہ ڈالے گئے ۔ پروگرام کا اختتام بھی ان ہی کے اس مشہور نغمے پر ہوا کہ : یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افوس ہم نہ ہوں گے۔ اس عظیم گلوکار کو وائس آف امریکہ کا یہ خراج عقیدت سامعین کو بہت پسند آیا۔