عمارت کے اندرونی حصے میں دونوں منزلوں پر 5،5 کمرے،راہداریاں اورمتعدد کھڑکیاں ہیں۔
آپ نے محلات اور حویلیوں کا ذکر قصے اور کہانیوں میں ہی سنا ہوگا یا پھر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ محلات اور وسیع و عریض حویلیاں برصغیر دور کی روایت ہوا کرتی تھیں مگر آج کل کے نئے دور میں جب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہو اور گھر بنانا سب سے مہنگا ترین مرحلہ ہو تو ایسے میں کوئی محل بنانے کا سوچے بھی تو کیسے سوچے؟
پاکستان کا ساحلی شہر کراچی میں "موہٹا پیلس" ایک ایسا محل ہے جو آج بھی عہد رفتہ کی یاد دلاتا ہے جسے دیکھ کر اسے تعمیر کرنے والے کی مہارت اور بنوانے والے کی سوچ کو داد دی جاسکتی ہے۔
ساحلی علاقے کلفٹن میں واقع یہ محل پاکستان کے قیام سے قبل " شیورام موہٹا" نامی ایک ہندو تاجر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کی رہائش کیلئے ساحل کے قریب 1927 میں بڑے چاؤ سے تعمیر کروایا تھا۔
موہٹا پیلس ہزاروں گز کے وسیع و عریض رقبے پر مشتمل دو منزلہ عمارت ہے۔جسے مسلمان ماہر تعمیرات آغا محمد حسین نے ڈیزائن کیا تھا۔عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جبکہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔
عمارت کے اندرونی حصے میں دونوں منزلوں پر 5،5 کمرے،راہداریاں اورمتعدد کھڑکیاں ہیں۔ عمارت کے فرش اور چھت کے نقش و نگارمحل کی اندرونی خوبصورتی کو دو چند کرتے ہیں۔ اس عمارت کی تعمیر میں خاص جودھپور کے لال پتھروں سمیت کراچی کے علاقے گزری کے پیلے پتھروں کا استعمال کیاگیا ۔عمارت کے باہر چاروں اطراف خوش رنگ پھولوں کی کیاریاں بھی ہیں۔
موہٹا پیلس میں عمارت کی دیکھ بھال کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے چند ملازم بھی تعینات کیے گئے ہیں جن میں سے ایک ملازم محمد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "تقسیم ہند کے بعد موہٹا پیلس سمیت کئی اہم عمارتیں پاکستان کے حصے میں آگئیں بعد ازاں شہر کی مشہور عمارت ہونےکے باعث موہٹا پیلس کی عمارت کو بانی پاکستان قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو رہائش کیلئے دیدیا گیا تھا، جسے بعد میں " قصر فاطمہ" کا نام بھی دیاگیا۔ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کےکئی سالوں بعد اس عمارت کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لےلیا۔‘‘
موجودہ دور میں موہٹا پیلس کو تاریخی عمارت ہونے کے اعتبار سے قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ یہ بیرونی ممالک کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تو ہے ہی مگر مقامی شہریوں کیلئے اب اس عمارت کو میوزیم کے طورپر کھولا گیا ہے جہاں ملک کے نامور مصوروں کی سالانہ تصویری نمائش منعقد کی جاتی ہے جبکہ شہر کی بڑی بڑی شخصیات کی جانب سے اس عمارت کے احاطے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیاجاتا ہے۔
پاکستان کا ساحلی شہر کراچی میں "موہٹا پیلس" ایک ایسا محل ہے جو آج بھی عہد رفتہ کی یاد دلاتا ہے جسے دیکھ کر اسے تعمیر کرنے والے کی مہارت اور بنوانے والے کی سوچ کو داد دی جاسکتی ہے۔
ساحلی علاقے کلفٹن میں واقع یہ محل پاکستان کے قیام سے قبل " شیورام موہٹا" نامی ایک ہندو تاجر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کی رہائش کیلئے ساحل کے قریب 1927 میں بڑے چاؤ سے تعمیر کروایا تھا۔
موہٹا پیلس ہزاروں گز کے وسیع و عریض رقبے پر مشتمل دو منزلہ عمارت ہے۔جسے مسلمان ماہر تعمیرات آغا محمد حسین نے ڈیزائن کیا تھا۔عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جبکہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔
عمارت کے اندرونی حصے میں دونوں منزلوں پر 5،5 کمرے،راہداریاں اورمتعدد کھڑکیاں ہیں۔ عمارت کے فرش اور چھت کے نقش و نگارمحل کی اندرونی خوبصورتی کو دو چند کرتے ہیں۔ اس عمارت کی تعمیر میں خاص جودھپور کے لال پتھروں سمیت کراچی کے علاقے گزری کے پیلے پتھروں کا استعمال کیاگیا ۔عمارت کے باہر چاروں اطراف خوش رنگ پھولوں کی کیاریاں بھی ہیں۔
موہٹا پیلس میں عمارت کی دیکھ بھال کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے چند ملازم بھی تعینات کیے گئے ہیں جن میں سے ایک ملازم محمد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "تقسیم ہند کے بعد موہٹا پیلس سمیت کئی اہم عمارتیں پاکستان کے حصے میں آگئیں بعد ازاں شہر کی مشہور عمارت ہونےکے باعث موہٹا پیلس کی عمارت کو بانی پاکستان قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو رہائش کیلئے دیدیا گیا تھا، جسے بعد میں " قصر فاطمہ" کا نام بھی دیاگیا۔ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کےکئی سالوں بعد اس عمارت کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لےلیا۔‘‘
موجودہ دور میں موہٹا پیلس کو تاریخی عمارت ہونے کے اعتبار سے قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ یہ بیرونی ممالک کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تو ہے ہی مگر مقامی شہریوں کیلئے اب اس عمارت کو میوزیم کے طورپر کھولا گیا ہے جہاں ملک کے نامور مصوروں کی سالانہ تصویری نمائش منعقد کی جاتی ہے جبکہ شہر کی بڑی بڑی شخصیات کی جانب سے اس عمارت کے احاطے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیاجاتا ہے۔