ایک مذاکرے میں نوجوان فنکاروں سےمخاطب ہوتے ہوئے، معین اختر کہتے ہیں:’یہ نیچرل ایکٹر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ محنت کرنی پڑتی ہے، ریاض کرنا سیکھو‘۔
اُن کے بقول، ’ایکٹر کا چہرہ شیشے کی مانند ہوتا ہے۔ اِس پر تصورات کی عکاسی ہوتی ہے۔۔۔ جب تک چہرے کو flexibleنہیں بناؤ گے، ایکٹر نہیں بنوگے‘۔
وہ نصیحت کرتے ہیں کہ، دوسرے لوگوں کو observeکرو، چہرے پر expressionپیدا کرو۔ یہی کسی اداکار کی کامیابی کی کنجی ہے۔
معین اختر کیا گئے دلوں کے شہر میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے بچھڑنے کے بعد بے ساختہ دل کہہ اٹھتا ہے:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کھ رت ہی بدل گئ
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
معین کو ہرمیدان میں بہترین کارکردگی پر ستارہٴ امتیاز اور ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ 24 دسمبر 1950ء کوکراچی میںپیدا ہوئے اور گلیمر کی دنیا میں 6 ستمبر سنہ1966 میں قدم رکھا۔ معین اختر نے اداکاری، کمپئرنگ، پلے رائٹنگ اور گلوکاری کے ساتھ ساتھ فلم پروڈکشن اور ڈائریکشن میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، کامیڈی کو ان کی خاص وجہ شہرت سمجھا جاتا ہے۔
معین کو کئی زبانوں پرعبور حاصل تھا۔ وہ انگلش، اردو، پنجابی، بنگالی، سندھی، میمنی، پشتو اور گجراتی بڑی روانی سے بولتے تھے۔ معین کے مزاح میں ایسی لطافت اور شائستگی تھی کہ ان کی کامیڈی فیملی انٹرٹینمینٹ کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے سطحی جملوں سے ہمیشہ احتراض کیا۔
ٹی وی ڈرامے کے ایک کردار’روزی‘ میں انہیں خوب سراہا گیا، اس کے علاوہ ان کےٹاک شو ’سٹوڈیو ڈھائی‘ اور ’لوز ٹاک‘ بہت پسند کیے گئے۔ لوز ٹاک کے تقریبا 400 شوز میں معین ہر دفعہ ایک نئے روپ نئے ڈھنگ اور نئے لب و لہجے کے ساتھ سامنے آئے ۔
معین اختر نے کئی ملکی اور غیر ملکی سربراہان کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد پائی۔ ان کے مشہورٹاک شوز میں ففٹی ففٹی ،شوشا، شو ٹائم، سٹوڈیو ڈھائی، سٹوڈیو پونے تین اور لوز ٹاک شامل ہیں۔
معین پاکستان میں ہی نہیں بھارت میں بھی بے حد مقبول تھے۔ دلیپ کمار کی سالگرہ پر ان کی خواہش پر معین اختر کو میزبانی کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔
ایک عالم کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے اور دلوں میں خوشیوں کے پھول کھلانے والا یہ شخص دل کے عارضے کے ہاتھوں ایک برس قبل22 اپریل کی شام چھ بج کر پندرہ منٹ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے چاہنے والوں سے بچھڑ گیا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: