دنیا کی مختلف تہذیبوں کا چاند کے حوالوں سے خاص لگاؤ رہا ہے۔ قدیم مصری تہذیب میں چاند کو مسافرانِ شب کا محافظ قرار دیا گیا۔ چینی چاند پر موجود دیوی کی کہانی سناتے ہیں اور قدیم یونان کے مطابق چاند کی دیوی اسے تاریک آسماں میں ایک گاڑی بنا کر چلاتی ہے۔ ادب میں شاعر اکثر چاند کو حسن کے استعارے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
لیکن، آج کے سائنسی دور میں چاند نے سائنسدانوں کو تجسس میں ڈال رکھا ہے؛ یہاں تک کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم شاید زمین کے کچھ حصوں کے مقابلے میں چاند کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں چاند کو ایک ایسی گھومتی ہوئی چٹان قرار دیا ہے جس کی انسانی زندگی میں ایک مستقل حیثیت ہے۔ اس مضمون کے مطابق چاند گویا زمین کا ایک قدرتی سیارہ ہے۔
یہ جان کر شاید کچھ لوگوں کو حیرت ہو کہ چاند بہت حد تک زمین کے ٹوٹے حصوں سے بنا ہے اور چاند اس وقت معرض وجود میں آیا جب کسی آسمانی شے کے ٹکرانے سے زمین کے کچھ ٹکڑے خلا میں بکھر گئے۔ یوں، چاند ایک چھوٹی سی زمین سے بنا ہے نہ کہ پنیر سے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔
دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ چاند اربوں سال پہلے کی زمین کی ایک جھلک بھی دکھاتا ہے، کیونکہ اس پر پڑے زمانہ قدیم کے گڑھے بالکل اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں، جبکہ مستقل تغیرات کے نتیجے میں زمین کی سطح شکل بدلتی رہتی ہے۔
زمین اور چاند آپس میں تاش کے پتے بدلنے کے بجائے پتھروں اور دھاتوں سے بنے ہوئے بڑے بڑے ٹکڑے ایک دوسرے کی طرف روانہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ چاند پر 100 مربع میل میں بیس ہزار کلوگرام کا حصہ زمیں کے ٹکڑوں سے بنا ہوا ہے۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ چاند پر موجود زمین کے قدیم ٹکڑوں سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ زمین پر اربوں سال پہلے کس قسم کی مادی اشیا اور گیسیں موجود تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین پر آنے والی زندگی کے آثار چاند کے لاوا میں موجود ہو سکتے ہیں۔
چاند کو سائنسی انداز میں پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمین اور چاند اگرچہ ایک ہی وقت میں وجود میں آئے۔ لیکن، زمین چاند کے مقابلے میں کم عمر دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ زمین اپنے اندر سے لاوا اور گیسیں اگلتی رہتی ہے اور اس طرح اپنے جلد کے حسن کو تازہ اور جوان رکھتی ہے، جبکہ چاند نے کروڑوں سال پہلے لاوا اگلا تھا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے چاند کا اگلا ہوا لاوا محفوظ کرلیا گیا ہو اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین اور چاند کس قسم کا لاوا اگلتے تھے۔
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ چاند زمین کو اپنی مقناطیسی چادر برقرار رکھنے میں بہت مدد کرتا ہے۔ یہ مقناطیسی چادر زمین کو کائنات میں بکھرے ٹکڑوں سے بچاتی ہے جو دوسری صورت میں اس سے آکے ٹکرا سکتے ہیں۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ زمین کے مقابلے میں چاند پر زلزلے بہت کم گہرائی سے اٹھتے ہیں اور دس دس منٹ تک جاری رہتے ہیں۔ زلزلوں کی نوعیت بتاتی ہے کہ زمین کی تہہ میں پانی کس طرح زلزلوں کی توانائی کو مختلف اطراف دھکیلتا ہے۔ چاند پر زلزلوں کی تحقیق سے یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ زمین آئس ایج میں حالات کیسے تھے۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہم نظام شمسی میں کسی بھی سیارے یا چاند کو اس کی سطح سے منعکس ہونے والی روشنی سے ناپ سکتے ہیں۔ زمین سے منعکس ہونے والی روشنی چاند کے کچھ حصوں کو ہمیں دکھاتی ہے خاص طور پر نئے چاند کےدنوں میں منعکس ہونے والی روشنی یہ بتاتی ہے کہ زمین خلا میں کس قدر روشن دکھائی دیتی ہے۔
چاند زمیں کے لیے کتنا اہم ہے اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چاند کی کشش زمین کو اپنے محور کے گرد 23.5 ڈگری زاویے پر موجود رہنے میں مدد کرتی ہے۔ اگر زمین اس زاویے سے ہٹ جائے تو بہت تیزی سے گھومے گی اور موسموں میں شدت آجائے گی۔ سمندری لہروں کا اتار چڑھاؤ بھی متاثر ہوگا اور اس کا توازن بھی خراب ہوگا۔
ان سب جڑی ہوئی کڑیوں کے باوجود زمیں اپنے سیارے، یعنی چاند کو ہر سال ڈیڑھ انچ دور دھکیل رہی ہے، کیوں کہ یہ اپنے محور کے گرد زیادہ تیزی سے گھومتی ہے۔ اس عمل کو سمجھنے سے زمین پر ماحولیات کے بارے میں مزید علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔