کم عمر ملزمان سے متعلق نظام انصاف میں جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور

فائل

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی رپورٹ کے مطابق عمر کے تعین کے مناسب ذرائع کے فقدان کی وجہ سے ملزموں کی عمر کا تعین طبی بنیاد کی بجائے ان کی ظاہری شباہت کی بنا پر کیا جاتا ہے اور عدالتوں میں بھی اس ضمن میں مناسب طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا۔

پاکستان میں قیدوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں سزائے موت کے قیدیوں میں 10 فیصد مجرم ایسے ہیں جنہیں اٹھارہ سال سے کم عمر میں قتل کے جرم کا ارتکاب کرنے پرسزائے موت سنائی گئی۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان نامی تنظیم کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کم عمر مجرموں کو دی گئی یہ سزائیں نابالغوں سے متعلق انصاف کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ ہزار سے زائد ہے جن میں سے تقریباً آٹھ سو وہ ہیں جنہیں کم عمری میں جرم کرنے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی رپورٹ کے مطابق عمر کے تعین کے مناسب ذرائع کے فقدان کی وجہ سے ملزموں کی عمر کا تعین طبی بنیاد کی بجائے ان کی ظاہری شباہت کی بنا پر کیا جاتا ہے اور عدالتوں میں بھی اس ضمن میں مناسب طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ دسمبر 2014 میں پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک چھ ایسے مجرموں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا گیا جو ارتکاب جرم کے وقت نابالغ تھے۔

حکومت کا موقف رہا ہے کہ کسی بھی نابالغ مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی اور ان سزاؤں پر قانون کے مطابق ہی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سوال اٹھانا پڑتا ہے کہ (ملزم) نابالغ ہے یا اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے یا وہ عمر میں چھوٹا نظر آتا ہے تو (اگر یہ ثابت ہوجائے) پھر اسے موت کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔"

تاہم ان کا کہنا تھا کہ نابالغ مجرموں کو دوران قید اصلاح اور بحالی کے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دوبارہ جرم کا ارتکاب نا کریں۔

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور قانون دان ضیا احمد اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کم عمر ملزموں کے لیے انصاف کے ںظام میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

" جن وجوہات کی وجہ سے نابالغ مجرم پیدا ہورہے ہیں اس کے ساتھ اگر کوئی نابالغ کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے لیے ان مجرموں کے لیے انصاف کا جامع نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو موجودہ فوجداری نظام سے الگ ہونا چاہیے ۔۔۔کیوںکہ اب یہ نابالغ ملزم بڑے ملزموں کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور ان ہی کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔"

علی چوہان نے کہا کہ کم عمر مجرموں کے لیے جیلیں بھی الگ ہونی چاہیئں۔

" یہ سماجی بہبود ( کے محکمہ ) کا کام ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں اور جب یہ سدھر کر (جیل سے ) باہر آئیں گے تو اچھے شہری بن کر نکلیں گے اس کا ایک طریقہ کار وضح کرنے کی ضرورت ہے اور اسے قومی لائحہ عمل میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔"

پاکستان میں اکثر ایسے واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں جن میں انتہاپسند عناصر بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ضیا احمد اعوان کا کہنا ہے کہ پا کستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں اور نابالغ افراد پر مشتمل ہے اور ان کے بقول یہ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو صحت مند شہری بننے کے مواقع فراہم کریں تاکہ انتہا پسند عناصر انہیں ورغلا نا سکیں۔