پاکستان میں ہر سال بچوں سے زیادتی کے واقعات میں ہولناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2017ء کے ابتدائی چھ ماہ میں چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 2322 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ اعداد و شمار پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی سال 2018ء کی ششماہی رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں جس میں جنوری سے جون 2018ء تک کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر روز اوسطاً 12 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بچوں سے زیادتی کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار اکھٹا کرنے اور مثاثرہ بچوں کے خاندانوں کو مفت قانونی مشاورت دینے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کے سینئر پروگرام افسر ممتاز گوہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیش آنے والے واقعات کی تعداد میں صرف وہ کیسز شامل ہیں جو رپورٹ ہوئے جب کہ متعدد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ممتاز گوہر نے وی او اے کو بتایا، "بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں ہوئے۔ یہاں 1515 واقعات رپورٹ ہوئے۔ دوسرا نمبر سندھ کا ہے جہاں 592 واقعات ہوئے۔ بلوچستان میں ایسے کیسوں کی تعداد 55، کے پی میں 69، آزاد کشمیر میں 21 اور گلگت بلتستان میں دو رہی۔ ان میں 1725 کیس دیہی اور 597 شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔"
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، "پنجاب میں زیادہ واقعات رپورٹ ہونے کی وجہ آگاہی میں بہتری، میڈیا کی آسان رسائی اور لوگوں کی ان واقعات کے خلاف آواز آٹھانے کی زور پکڑتی عادت ہے جب کہ باقی صوبوں یا علاقوں میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے واقعات کی تعداد صرف ایک شہر ’اسلام آباد‘ میں پیش آنے والے واقعات سے بھی کم ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں واقعات کا رپورٹ نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔"
ایسے واقعات پر علاقہ پولیس کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے؟ اس سوال پر ممتاز گوہر کا کہنا ہے، "ایف آئی درج نہ ہونا بھی ایسے کیسز میں ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ خاص کر دیہی علاقوں میں پولیس یا تھانے سے اثر و رسوخ انصاف کی راہ میں آڑے آجاتا ہے۔ تربیت یافتہ محرر بھی ایک مسئلہ ہے۔ وہ قانون سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے اور لاعلمی میں ہی کمزور ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے جس سے مجرم کو سخت سزا نہیں ہو پاتی۔"
ممتاز گوہر کے بقول، "والدین کی خاموشی، آگاہی نہ ہونا اور ایسے کیسز کے فوری بعد شواہد کا ضائع کیا جانا بھی بہت بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ جس مقام پر واقعہ رونما ہوتا ہے اسے خود والدین ہی ’ٹھیک‘ کردیتے ہیں۔ اس سے ثبوت ضائع ہوجاتے ہیں۔ متاثرہ بچے کے کپڑے چھپا دیے جاتے ہیں۔ والدین یا دیگر اہل خانہ اس بات سے بالکل لاعلم ہوتے ہیں کہ ایسے کیسز میں بچوں کو نہلائے بغیر ڈاکٹر کے پاس لے جانا ضروری ہوتا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی کیا اہمیت ہے، وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں۔ عدالتوں کے پاس شواہد اور ثبوت نہیں پہنچ پاتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجرم بھی قانون سے بچ نکلتا ہے۔ عوامی آگاہی نہ ہونا غیر دانستہ طور پر مجرم کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادتی کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔"
بچوں سے زیادتی کے واقعات پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں بچوں کی اس سلسلے میں تربیت اور ان کوشعور و آگہی نہیں دی جاتی۔ اس طرح کے واقعات اسکولز میں اتنے نہیں ہوتے جتنے فیملی، گھر یا گھرکے قریب کھیلنے کودنے کے دوران ہوتے ہیں۔
بچوں کے ذہنوں پر ایسے واقعات کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اس حوالے سے ماہرِ نفسیات اور کراچی نفسیاتی اسپتال سے وابستہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "ایسے واقعات بچوں کے احساسات اور معصومیت کو کچل دیتے ہیں۔ میرے اپنے مشاہدے میں اور میرے زیرِ علاج بھی بہت سے ایسے بچے ہیں جو واقعے کے کئی سال یا کئی ماہ بعد بھی خوف سے باہر نہیں نکل سکے۔ انہیں اندھیروں اور اجنبیوں سے ڈر لگتا ہے جب کہ کئی بچے تو ایسے ہیں جو اپنے رشتے داروں سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ ان سے ملتے جلتے بھی نہیں۔ ایسے بچے تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچوں کے لیے نہ صرف قانونی بلکہ نفسیاتی مدد بھی ضروری ہے تاکہ بچہ دوبارہ نارمل زندگی گزارسکے۔
کراچی کے ایک دینی مدرسے میں پڑھنے والے بچے کے والد نے وی او اے کو بتایا کہ ان کے بچے کو دینی تعلیم دینے والے ایک قاری نے نشانہ بنانے کی کوشش کی جس کے بعد بچہ گھر سے اکیلے نکلتے ہوئے خاص کر مدرسے جانے کے ذکر سے ہی رونے لگتا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد ایک دن اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق والد کو آگاہ کیا جس پر والد نے سخت قانونی ایکشن لیا۔
پنجاب کے شہر قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے بعد نئے قوانین بنائے گئے ہیں، کچھ میں ترامیم بھی ہوئی ہیں لیکن سزائیں اب بھی کم ہیں اور ان پر عمل درآمد آج بھی کم ہی ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ساحل کی رپورٹ کے مطابق قصور واقعے کے بعد بھی لڑکوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں 47 فی صد جب کہ لڑکیوں سے زیادتی کے کیسز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 22 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 6 سے 15 سال تک کی عمر تک کے بچوں کو سب سے زیادہ جنسی تشدد یا زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔
پانچ سال تک کے بچوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال پانچ سال کی عمر تک کے بچوں سے زیادتی کے 321 کیس رپورٹ ہوئے جب کہ 2017ء میں ایسے کیسوں کی تعداد 79 تھی۔
رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کے 48 فی صد کیسوں میں رشتے دار ملوث تھے۔ چودہ فیصد کیسوں میں رشتے داروں نے اجنبیوں کے ساتھ مل کر یہ جرم کیا جب کہ 12 فی صد کیسز میں زیادتی کرنے والے کی شناخت ظاہرنہیں کی گئی۔
بچوں سے زیادتی کے 24 واقعات رشتے داروں کے گھروں پر ہوئے۔ زیادتی کا شکار 15 بچے اپنے گھروں اور 10 فی صد کھیتوں میں نشانہ بنے۔