امریکہ کے محکمہ محنت نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک بھر میں مزید 38 لاکھ افراد نے بیروزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دی ہے۔ اس طرح چھ ہفتوں میں روزگار سے محروم ہونے والوں کی تعداد تین کروڑ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے وسط مارچ میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پہلے ہفتے میں 33 لاکھ، دوسرے میں 69 لاکھ، تیسرے میں 66 لاکھ، چوتھے میں 52 لاکھ اور پانچویں ہفتے میں 44 لاکھ شہریوں نے روزگار کھویا تھا۔
امریکہ کی ورک فورس 15 کروڑ افراد پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہر پانچ میں سے ایک شخص ذریعہ آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے ایک حالیہ تجزیے میں کہا ہے کہ 15 مارچ سے 18 اپریل کے درمیان کم از کم 89 لاکھ مزید افراد بیروزگار ہوئے۔ لیکن، وہ پیچیدہ عمل ہونے کی وجہ سے بیروزگاری الاؤنس کے لیے درخواست نہیں دے سکے۔
دیگر معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مزید لاکھوں وہ تارکین وطن ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں یا جو قانونی قیام تو رکھتے ہیں، لیکن بیروزگاری الاؤنس کے اہل نہیں۔
عام حالات میں ہر ماہ چند لاکھ افراد بیروزگاری الاؤنس کی درخواست دیتے تھے۔ لیکن، اب ہر ہفتے دسیوں لاکھ افراد کا بیروزگار ہو رہے ہیں جس سے ریاستی حکومتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ لاکھوں افراد گھر کا کرایہ اور دوسرے بل نہیں دے پا رہے جس سے مجموعی طور پر معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
امریکہ میں معمول کے زمانے میں ہر سال ملازمت کے کئی لاکھ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ عام حالات میں تین کروڑ ملازمتوں کی فراہمی میں بہت سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن، کیلی فورنیا پالیسی لیب کا گزشتہ روز سامنے آںے والا یہ تجزیہ خوش آئند ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بیروزگار ہوئے 90 فیصد افراد کو بحران ختم ہونے کے بعد ان کے ادارے دوبارہ ملازم رکھ لیں گے۔
اسی رپورٹ کے مطابق، بیروزگار ہو جانے والوں میں 37 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی تعلیم ہائی اسکول یا اس سے کم ہے۔ بیچلرز ڈگری والے صرف 6 فیصد افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے ایک معاشی ماہر کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ریاستی اور مقامی حکومتیں بھی اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہوسکتی ہیں جس کے بعد بیروزگار ہونے والوں کی تعداد 4 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کے مطابق نے بدھ کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جنوری سے مارچ تک قومی معیشت 4٫8 فیصد سکڑ گئی جو 2008 کے معاشی بحران کے بعد سب سے زیادہ زوال ہے۔
لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ جو شعبے متاثر ہوئے ہیں ان میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری، ریسٹورنٹس، ہوٹل اور سفر کے ذرائع شامل ہیں۔ عالمی سطح پر پروازیں بند ہونے سے بہت سی فضائی کمپنیاں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ بوئنگ نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ وہ 10 فیصد عملہ کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے روزگار کے 14 ہزار مواقع ختم ہوجائیں گے۔