پاکستان کی حکومت نے کرونا وائرس سے متاثرہ کم آمدنی والے طبقے کے لیے 200 ارب کے ریلیف پیکج کی منظوری دی ہے۔ جن میں سے 75 ارب دیہاڑی دار اور مزدور طبقے پر خرچ کیے جائیں گے۔
حکومت کے مطابق اس رقم سے مزید 60 لاکھ گھرانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ احساس پروگرام کے طریقہ کار کے تحت 'مزدور کا احساس' پروگرام کے ذریعے منتخب افراد میں 12 ہزار روپے فی کس تقسیم کیے جائیں گے۔
اس کے لیے احساس کفالت پروگرام میں مزید ایک کٹیگری کا اضافہ کیا جائے گا۔ 'مزدور کا احساس' پروگرام میں کم آمدنی والے مزدوروں، محنت کشوں، لوڈرز اور صفائی کرنے والے عملے کا شامل کیا گیا ہے۔
کنٹریکٹ ملازمین، خوانچہ فروشوں، تعمیراتی کارکنوں، پینٹرز، ویلڈرز، مکینکس، گھریلو ملازمین، ترکھان اور ڈرائیوروں کی مالی مدد بھی کی جائے گی۔
کمیٹی نے متعلقہ وزارت کو رقوم کی شفاف فراہمی یقینی بنانے کے لیے جامع طریقہ وضع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں اور نہ ہی ان کے متعلق حکومتی اداروں کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہے کہ ان تک براہ راست پہنچا جا سکے۔
رقم کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
مزدوروں کو یہ امداد فراہم کیسے کی جائے گی اور ان کی نشاندہی کس طرح ہو گی۔ اس بارے میں سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دیہاڑی دار مزدوروں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جو حالات ہیں ان میں ایس ایم ایس سروس کے ذریعےجن لوگوں نے حکومت سے درخواست کی انہی کو ہی تصدیق کے بعد رقم فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایس کے ذریعے دستیاب ڈیٹا ہی مستحق افراد تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پہلے 35 لاکھ افراد کی نشاندہی ہوئی تھی لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 20 لاکھ ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا تھا کہ یہ رقم ناکافی ہے۔ لہذٰا اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔
پاکستانی مزدوروں کو سکلڈ لیبر میں تبدیل کرنے کے بارے میں ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ اس وقت جتنی لیبر ہمارے پاس موجود ہے۔ ان میں سے بیشتر اس عمر سے نکل چکے ہیں کہ انہیں کسی شعبے کا ماہر بنایا جا سکے۔
البتہ نئے آنے والی لیبر کو 'ٹیوٹا' جیسے حکومتی اداروں کے ذریعے ہنرمند بنایا جا سکتا ہے۔ اب جب ان کو رقوم کی فراہمی کے ذریعے ان کا ڈیٹا حاصل ہوا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ ان میں سے کم عمر افراد کو سکلڈ لیبر میں تبدیل کرے۔
ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا تھا کہ ابھی جو ڈیٹا حاصل ہوا ہے وہ ایک اندازہ ہی ہے کہ یہ لوگ خط غربت سے نیچے کے مزدور ہیں لیکن حکومت کے لیے اچھا موقع ہے کہ اپنا پورا ڈیٹا بیس تیار کر سکے۔
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بہت سے ادارے مزدوروں سے متعلق ڈیٹا تیار کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس (ای او بی آئی) سمیت مختلف ادارے موجود ہیں جو اس بارے میں اپنا ڈیٹا تیار کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی 75 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی ہے لیکن اس میں مزید افراد اگر شامل ہوئے تو رقم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اُن کے بقول پاکستان میں عالمی طریقہ کار کے مطابق ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت بارہ ہزار روپے کی رقم اتنی خاطر خواہ نہیں ہے۔ امکان ہے کہ حکومت کو کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ اتنی ہی رقم یا اس سے کچھ کم رقم لوگوں کو فراہم کرنا ہو گی۔
سلمان شاہ کے بقول لاک ڈاؤن کی صورتِ حال میں مزدور ابھی بے روزگار ہیں ان کو ایسے ہی نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ ایسے لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کیا کہنا ہے؟
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے مزدوروں کی صورتِ حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ رواں سال کی دوسری سہہ ماہی میں ایک کروڑ 95 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایل او کے مطابق عرب ریاستوں میں 50 لاکھ، یورپ میں ایک کروڑ 20 لاکھ اور ایشیا میں ایک کروڑ 25 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی ایل او کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے مختلف ممالک میں 10 کروڑ مزدوروں کے نقصان کا اندیشہ ہے جو کہ سال 2008 میں آنے والے عالمی اقتصادی بحران سے بڑا خطرہ ہے۔