دارفر میں پناہ گزینوں پر کیمپ پر مسلح افراد کا حملہ، کم از کم 80 افراد ہلاک

دارفر میں مظاہرین احتجاج کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹرس نے سوڈان میں پناہ گزینوں کے کرنگڈنگ کیمپ میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں 80 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور 160 سے زیادہ زخمی ہونے کی اطلاعات کے بعد حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ دارفر کے علاقے میں شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔

سوڈان کی مغربی دارفر ریاست کے گورنر نے اس حملے کے فوری بعد علاقے میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے۔

گورنر محمد عبداللہ ال ڈوما نے کہا ہے کہ ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیےسینکڑوں فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری گوٹریس کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے کے سربراہ نے متاثرہ خاندانوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے تعزیت کی ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔

اس تنازع کا آغاز جمعے کے روز اس وقت ہوا جب مسالت نامی قبیلے کے ایک فرد نے ذاتی جھگڑے میں ایک عرب قبیلے کے شخص کو ہلاک کر دیا۔

گورنر ڈوما نے بتایا کہ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا اور سرکاری پراسیکیوٹر نے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ ہفتے کی صبح دارفر کے مختلف حصوں سے مسلح افراد نے ایک منصوبے کے تحت اکھٹے ہو کر حملہ کر دیا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ اسے ایک انتقامی کارروائی ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مجھے کیمپ پر حملے کی کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ قاتل کا تعلق اس کیمپ سے تھا یا نہیں ، لیکن اگر تھا بھی تو بھی یہ ایک انفردی عمل تھا۔

گورنر نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ایک تہائی سے زیادہ کیمپ کو جلا کر راکھ کر دیا اور بہت سے لوگوں کو مار ڈالا۔ ہم ابھی تک ان کی گنتی کر رہے ہیں۔

گورنر کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے کیمپ میں لوٹ مار بھی کی۔

دارفر کے ایک پناہ گزین کیمپ میں عورتیں پانی بھرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔

اس کیمپ میں ہزاروں کی تعداد میں وہ سوڈانی مقیم ہیں جنہیں ملک میں جاری تشدد اور قتل و غارت گری کی وجہ سے اپنا گھر بار چھور کر یہاں پناہ لینی پڑی ہے۔

اتوار کی شام سینٹرل کمیٹی آف سوڈانی ڈاکٹرز نے بتایا کہ اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 83 ہو چکی ہے جب کہ 160 سے زیادہ زخمی ہیں۔

زخمیوں میں سے کئی ایک کی حالت نازک ہے اور گورنر ڈوما کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

گورنر کا کہنا تھا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے تمام شہریوں کو غیر مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اکتوبر میں جوبا میں ہونے والے امن معاہدے پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا جب تک دارفر کے علاقے میں تمام شہریوں سے ہتھیار لے لیے نہیں جاتے۔

دارفر بار ایسوسی ایشن نے ریاست مغربی دارفر کی صورت حال پر اپنے ایک بیان میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دارفر بار ایسوسی ایشن کے صدر اور انسانی حقوق کے ایک وکیل صالح محمود نے کہا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم ازکم ایک سو ہے۔ جب کہ مقامی اسپتالوں کے پاس زخمیوں کے علاج کے لیے سامان کی قلت ہے۔

اکتوبر میں سوڈان کی عبوری حکومت نے دارفر کے کئی مسلح گروپوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت دارفر کے علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے 12 ہزار افراد پر مشتمل ایک مشترکہ سیکیورٹی فورس قائم کی جانا تھی جو ابھی تک تشکیل نہیں پا سکی ہے۔